Skip to content
Home » Revenge Base Novels » Page 3

Revenge Base Novels

Junoon e mehram (S3 of ishq e mehram)By umm-e-omama Complete Novel

  • by

“سترہ سال چھوٹی ہے وہ تم سے”

“مجھے پروا نہیں ہے”

“زریام کبھی نہیں مانے گا”

“مجھے انکی اجازت نہیں چاہیے”

“حورم بھی نہیں مانے گی”

اسٹڈی روم میں چند لمحوں کی خاموشی چھا گئی

”حورم مان جائے گی نہ مانی تو یہ اسکی اپنی غلطی ہے”

اسنے ضدی انداز میں کہا

“آپ جانتی ہیں نہ مام ڈیڈ ہمیشہ کہتے تھے کہ ارتضیٰ اپنی چیزوں کے معاملے میں بہت پوزیسو ہے وہ غلط نہیں کہتے تھے میں واقعی میں اپنی چیزوں کے معاملے میں بہت پوزیسو ہوں پھر چاہے وہ کوئی بےجان چیز ہو یا جاندار”

“حورم کوئی چیز نہیں ہے ارتضیٰ”

“بلکل وہ کوئی چیز نہیں ہے وہ ایک انسان ہے جس کے احساسات ہیں جذبات ہیں لیکن میں کیا کروں اسے چھوڑنا میرے بس میں نہیں ہے”

“وہ لڑکی میری سانسوں میں بستی ہے وہ میری سانسوں کی ڈور ہے اور اگر حورم شاہ ارتضیٰ آفندی سے دور ہوئی تو یہ ڈور ٹوٹ جائے گی”

اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے چلا گیا جبکہ وہ بھیگی آنکھیں لیے وہیں بیٹھی رہی

اسنے اور احسان نے ارتضیٰ کو ہمیشہ لاڈوں میں پالا تھا وہ ضدی بچپن سے تھا اگر کسی خواہش کا اظہار کردیتا تو اسے پوری کرکے دم لیتا تھا اسکی ضد پر ان دونوں نے کبھی کچھ نہیں کہا تھا

لیکن اگر حفضہ کو اندازہ ہوتا کہ اسکی یہ ضد آگے جاکر یہ روپ اختیار کرنے والی ہے تو وہ کبھی بھی اسکی بےجا ضد پوری نہیں کرتی

یہ کیسی محبت تھی جس میں وہ اپنی محبت کی خوشی ہی نہیں دیکھ رہا

یہ بات وہ اسے سمجھا نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ خود جانتی تھی کہ ارتضیٰ کے لیے حورم محبت نہیں تھی

اسکا عشق اسکا جنون تھی محبت ہوتی تو وہ شاید چھوڑ دیتا

لیکن وہ محبت نہیں تھی وہ اسکا پاگل پن تھی جسے وہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنے والا تھا

Pyar mera nafrat bhara by Aiman Akmal complete novel

  • by

زری ایک لڑکی تمہارا نام پوچھ رہی تھی میں ایج سے لے کر گھر کے ایڈریس تک سب بتا آئی۔ عشاء تو ایسے بتا رہی تھی جیسے کوئی کارنامہ کر دیا ہو

بس فون نمبر رہ گیا. عشاء اداس ہوئی

کیا مطلب کس کو بتا آئی ہو؟ زریام کے تو ہوش اڑے تھے

دعا دو گے مجھے فری میں ایک گلر فرینڈ مل گئی

شکریہ ادا مت کرنا۔ ایسے چھوٹے موٹے کام میں کرتی رہتی ہوں۔ ویسے مبارک ہو تمہیں اب تم سنگل نہیں رہے

عشاء تو مسکرا رہی تھی لیکن زویا کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا

یار عشاء یہ کوئی طریقہ۔۔۔۔۔

اوہ کملی جی ناں پوچھدی۔۔۔۔ کیندی ہاں یاں کہ نا پوچھدی

او لبھدی بہانے پھردی۔۔۔۔۔۔ کدے کافی کدی چاہ پوچھدی

زریام کچھ کہنے ہی لگا تھا جب عشاء گنگنانے لگی

میں پھیرا اگنور ماردا کیوں کہ ٹوٹیا ہے دل یار دا

یار ہی نے جیرے سانبھی جاندے نے عشاء نے خود کو مہان محسوس کرتے بائیں پھیلائی

زریام حیران و پریشاں بیٹھا ایک نئی مووی کا ٹریلر دیکھ رہا تھا

بس کر دو عشاء ہر بات مزاق نہیں ہوتی۔ زویا غصے سے کہتی اٹھ کر چلی گئی

اسے کیا ہوا؟ زریام نے اسے غصے میں جاتے ہوۓ دیکھ پوچھا

میں دیکھ کر آتی ہوں؟ عشاء بھی اس کے پیچھے جانے کے لیے کھڑی ہوئی لیکن دو قدم چلنے کے بعد بھاگ کر واپس زریام کے پاس آئی

یہ گانا پرفیکٹ میچ تھا لیکن ایک مسئلہ ہے یار تمہارا دل ٹوٹا ہوا نہیں ہے تو پھر ایسا کرو پہلے اپنا دل تڑواؤ اور پھر ہم یہی سے شروع کریں گے ۔ عشاء اسے آنکھ مارتی زویا کے پیچھے جانے لگی جبکہ زریام نفی میں سر ہلا کر رہ گیا

زویا منہ بناۓ بینچ پر بیٹھی تھی جب عشاء اس کے ساتھ آکر بیٹھی

ایسے کیا دیکھ رہی ہو تمہارا ہی ہے۔ عشاء نے اس کے کندھے سے کندھا مس کیا

ک۔کیا مطلب

زویا جو زریام کو ہی دیکھ رہی تھی جس کے پاس کچھ لڑکیاں کھڑی تھیں اور وہ بھی ایسے بات کر رہا تھا جیسے اس کے ماموں کی بیٹیاں ہوں اپنی چوری پکڑے جانے پر ہڑبڑا کر بولی

تمہیں کیا لگتا ہے میں نہیں جانتی اس بارے میں۔ بچپن کی دوستی ہے میری تم سے چہرہ بھی پڑھ لیتی ہوں

اور وہ تاثرات تو واضح جھلک رہے ہوتے ہیں جو زریام کو کسی لڑکی کے ساتھ دیکھ کر تمہارے چہرے پر آتے ہیں۔ عشاء نے اس کے گرد باہیں پھیلاتے اس کی تھوڑی پر انگلی رکھتے اسکا چہرہ اپنی طرف موڑتے کہا

عشاء میں بہت کوشش کرتی ہوں اس سب سے نکلنے کی لیکن یہ میرے بس میں نہیں رہا یار۔ میں کیوں اس کے بارے میں سوچتی ہوں۔ اس کا کسی سے بات کرنا مجھے کیوں اچھا نہیں لگتا مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا ہے یار میں کیا کروں؟ مجھے ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے۔ جب بھی وہ کسی لڑکی سے ہنس کر بات کرتا ہے تو دل میں خوف پیدا ہو جاتا ہے

زویا اپنے جذبات بتانے سے بھی ڈرتی تھی اور زریام کے کسی اور کے بارے میں جذبات جاننے سے بھی ڈرتی تھی

اگر وہ کسی سے۔۔۔۔۔۔

تمہیں لگتا ہے ایسا کچھ ہو گا ہر لڑکی کو تو وہ ایسے ٹریٹ کرتا ہے جیسے اس کی گرل فرینڈ ہو لیکن یار اسکا وہ ڈائیلوگ ساری لڑکیاں میری بہنیں ہیں

Musht e khaak by Laraib Fatima complete novel

” چلیں بھی آگے بولیں جلدی ۔۔ کیا کر سکتے ہیں ہم۔۔؟ “

اسکے استفسار پر ابھی زمار کچھ بولتا اس سے پہلے ہی وہ خود بول اٹھا ۔۔

” کیا میں ارتضیٰ کو خود شوٹ کر سکتا ہوں۔۔یہ میرا بہت بڑا خواب ہے اسے ختم کر دینا اسے زندہ جلا دینا ۔۔کیا میں کر سکتا ہوں ایسا۔۔۔؟ “

اسکے ایسے استفسار پر سامنے بیٹھے زمار کے جبڑے بھینچ گئے تھے اسنے بہت مشکل سے خود کو کچھ بھی کہنے سے بعض رکھا اور اپنی ادھوری بات جاری کی۔۔

” ہم ابھی بس یہ کریں گے کہ ارتضیٰ کو کال کریں گے اور بتائیں گے کہ اب جب وہ پاکستان آ ہی گیا ہے تو ہوش میں رہے قدم قدم پر اسکی جان کو خطرہ ہے ۔۔ اور اسکے ہر عزیز کی جان کو بھی۔۔ اسے بتائیں گے کہ صرف وہ ہی دس سال پہلے والی کہانی میں نہیں لوٹا ہے ہم بھی واپس آئیں ہیں۔۔ اور اب دیکھتے ہیں کہ جیت کس کی ہوتی ہے ۔۔”

زمار وحشت زدہ سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔ اسکے ساتھ ہی دوسرا شخص بھی کھڑا ہوا تھا ۔۔

ابھی زمار دروازے کی جانب بڑھتا اس سے پہلے ہی پیچھے سے آنے والی آواز پر ٹہر گیا ۔۔

” میرا خیال ہے اسکے اس دینا میں عزیز تو شاید نکل ہی آئیں مگر وہ بیچارہ جانتا نہیں ہے کہ اسکے کچھ خونی رشتے اس دنیا میں اب بھی موجود ہیں۔۔۔ میں بہت پر جوش ہوں اسے کڑوی حقیقت سے آشنا کروانے کے لئے۔۔”

Fana e hijar by Noor Ul Ain Mustafa Complete novel

  • by

”اگر فیصل منظرِ عام پر آگیا تو کیا ہوگا ؟ “ اس کے پوچھنے پر ارمان دوبارہ سے سوچ میں پڑ گیا۔ نعمان کو اس بلا وجہ کی خاموشی سے کوفت ہو رہی تھی۔

” اس پر دفعہ 302 لگے گی ۔“ نعمان کا سر گھوم اٹھا۔ ”بھائی! یہ دفعہ 302 گیا ہے ؟“ ارمان نے اسے سخت نظروں سے گھورا۔

” بتا رہا ہوں۔ پہلے سن تو لو ۔“ اس نے ایک لمحے کا توقف لیا ۔یہ بولنا بھی اس کے لیے بہت مشکل تھا۔پھر اس نے لمبا سانس بھرا ۔

”دفعہ 302 کے تحت اگر ایک انسان نے کسی کو قتل کیا ہے تو اسے سزائے موت یا عمر قید ہوگی ۔“ نعمان اور اسرا نے اس کی جانب حیرت سے دیکھا ۔

”اس میں آگے بہت سی کنڈیشنز بھی آ جاتی ہیں کہ قتل غلطی سے ہوا ہے یا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ اب فیصل نے جان بوجھ کر کیا ہے تو اسے سزا تو ملے گی۔ “ اب کی بار کمرے کی فضا میں ایک سرد پن گھل گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

” مگر وہ تو بدلہ لے رہا ہے نا ؟ قتل کے بدلے میں قتل کر رہا ہے !“ اسرا کی بات پر ارمان نے اثبات میں سر ہلایا ۔

” پھر اسے کیوں سزا ملے گی ؟ “اب کی بار نعمان شاکڈ لہجے میں بولا تو ارمان نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

”اسرا، نعمان ! قانون مجرم کے مجبوریاں نہیں دیکھتا۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ مجرم نے کوئی جرم کیوں کیا ہے؟ وہ صرف مجرم کا جرم دیکھتا ہے اور اسے سزا دیتا ہے ۔“ وہ اپنے آپ پر ضبط کے گہرے پہرے بٹھاتے ہوئے گویا ہوا ۔اس کی بات پر نعمان جھنجھلا اٹھا۔

” پھر دلاور شاہ کے جرم کو کیوں نہیں دیکھا گیا ؟ اس کے ساتھیوں کے جرم کو کیوں نہیں دیکھا گیا ؟ ان کو بھی تو سزا ملنی چاہیے ۔“ وہ طیش کے عالم میں بولا۔

” نعمان ! ہوش کے ناخن لو۔ یہاں انصاف کا نظام نہیں بلکہ لاٹھی کا نظام رائج ہے ۔تم نے نہیں سنا جس کی لاٹھی اس کی بھینس ؟“ نعمان نے اس کی بات پر اپنا سر جھٹکا۔ یہ کیسا نظام تھا ؟؟

”کل لاٹھی دلاور شاہ کے پاس تھی۔ ظاہری طور پر آج بھی اسی کے پاس ہے ۔مگر اصل میں آج لاٹھی فیصل افنان احمد کے ہاتھوں میں ہے ۔اور وہ سب کو سزا دے گا ۔“ اب اس کا غصہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اسے سمجھ آگئی تھی کہ وہ قانون کے ذریعے کچھ نہیں کر سکتا ۔

Adamzad or Bintehawa novel by Umaima Shafeeq Qureshi

  • by

“زارون چلو گھر چلتے ہیں۔”یہ وہی جانتی تھی کہ اس نے یہ بات کیسے کہی تھی۔

“ٹھیک ہے تو چلتے ہیں۔پہلے تمہاری غنڈی کزن کے ہاتھ کی چائے تو پی لوں۔”

“اپنے گھر جا کر نا اپنی معصوم بیوی کے

ہاتھ کی کافی پی لیجیے گا۔”انارا نے تڑک کر جواب دیا تھا۔

“تم مجھے گھر سے نکال رہی ہو؟”زارون نے بےیقینی سے پوچھا تھا۔

“ہاں نکال رہی ہوں۔”اس کے جواب پر وہ جل بھن گیا تھا۔

“مجھے پینی بھی نہیں ہے تمہارے ہاتھ کی بدمزہ چائے۔جا رہا ہوں میں…!”زارون نے اٹھتے ساتھ کہا تھا۔

“اگر اتنے ہی غیرت مند ہیں نا تو واپس اس گھر کا رخ مت کیجیے گا۔”انارا نے شان بےنیازی سے کہا تھا۔

“چند پیسے کیا آ گئے ہاتھ میں،لوگ خود کو پتا نہیں کیا سمجھنے لگ گئے ہیں؟”اسے ایک گھوری سے نوازتے زارون نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی تھی۔ذکیہ بیگم نے اسے روکنے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر وہ داریاء کا ہاتھ پکڑے جا چکا تھا۔اس کے گھر سے جانے کے بعد انارا نے مسکرا کر اپنے ہاتھ جھاڑے تھے۔زندگی اپنے معمول پر لوٹ آئی تھی۔ان دونوں کی دشمنی کا آغاز پھر سے ہو چکا تھا۔

Noor e Ashnayi novel by Dur e Nayab

  • by

“یاااہوووو! میں اس بار بھی جیت گیا۔” وہ چہکتے ہوئے بولا۔

“یار میں نہیں مانتا، تم نے اس بار بھی چیٹنگ کی ہے۔”

وہ اس کے سامنے کھڑا سینے پر بازو لپیٹے خفگی سے کہہ رہا تھا۔

“ہا ہا ہا۔۔ ارے مان لیں حامد ماموں! میں باسکٹ بال میں چیمپئن ہوں اور آپ مجھ سے نہیں جیت سکتے۔” وہ ایک ہاتھ میں فٹبال پکڑے سینے سے لگائے اور دوسرا ہاتھ پیٹ پر رکھے قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔ وہ جو منہ پُھلائے دوسری طرف دیکھ رہا تھا اس کے اس طرح ہنسنے پر اسے آنکھیں سُکیڑتے ہوئے دیکھنے لگا۔

ایسا کرتے ہیں میں آپ کا ایک مینٹلی ٹیسٹ لیتا ہوں، دیکھتے ہیں آپ کتنے ذہین ہیں۔” وہ ابھی مزید اس کی ٹانگ کھینچنے کے موڈ میں تھا۔

“مم۔۔ میرے خیال سے ماما ویٹ کررہی ہیں۔” وہ جانے کے لیے ُمڑا۔ وہ ہمیشہ اس کے سوالوں سے یوں ہی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بچ جاتا تھا۔

“حامد ماموں۔۔ یار آپ ہمیشہ ایسے ہی کرتے ہیں۔” وہ چِڑ کر بولا۔

“یااار۔۔ حماد بھائی سے پوچھنا نا سارے سوال۔۔ پتہ نہیں کہاں سے ڈھونڈتے ہو اتنے ٹف کویسچنز۔۔ جو میں نے بچپن میں بھی اپنی اسلامیات کی کتاب میں کبھی نہیں پڑھے۔” اس نے پریشانی سے سر کُھجاتے ہوئے جواب دیا۔

“سیدھا کہیں نا حماد ماموں آپ سے زیادہ ٹیلنٹڈ ہیں۔”

Junoon by T M Writer Complete Novel

یہ ناول ایک لڑکی دعا خان جو کہ ایک معروف جرنلسٹ ہوتی ہے ۔۔ وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتی۔۔وہ بہت فیمس ہوتی ہے۔۔ لاگ اسے بہت پسند کرتے ہیں۔۔ اخبار کیلئے لکھنا اسکا جنون ہوتا ہے۔۔ پھر اسکی ملاقات معارج سفیان سے ہوتی ہے جو کہ ایک ٹی وی چینل اور اخبار کا مالک ہوتا ہے۔۔ ہر ہفتے اس چینل پر ایک ٹاک شو ہوتا ہے۔ وہ دعا خان کو یہ شو کرنے کی آفر کرتا ہے۔۔ جسے دعا خان بڑی مشکل سے قبول کر لیتی ہے۔۔ معارج سفیان دعا کو پسند کرنے لگتا ہے۔۔۔
اذہان سکندر حیات یہ ایک معروف سیاستدان اور ایم این اے ملک سکندر حیات کا نا جائز بیٹا ہوتا ہے۔سکندر حیات اگلے الیکشن کیلئے اپنے بیٹے ملک اذہان سکندر حیات کو کھڑا کرنے کا سوچتا ہے۔۔۔
اس ٹاک شو میں اذہان سکندر حیات بطور مہمان خصوصی مدعو ہوتا ہے۔۔ اور دعا خان اسکے بارے میں سرچ کر کے سب کچھ جان لیتی ہے۔۔ اور پھر وہ لائیو شو میں ملک اذہان سکندر حیات کی۔ ے عزتی کرتی ہے۔۔ اور پھر یہیں سے ان دونوں کی دشمنی شروع ہو جاتی ہے۔۔ معارج سفیان دعا خان کو پرپوز کرتا ہے۔۔ اوچدعا مان جاتی ہے۔۔ اور دوسری طرف اذہان سکندر حیات دعا خان سے بدلہ لینے کا سوچ رہا ہوتا ہے اور پھر بالآخر وہ اسے عین نکاح سے چند منٹ پہلے اغواء کر لیتا ہے۔۔ اور اسے پنے فارم ہاؤس میں قید کر لیتا ہے۔۔ معارج سفیان اسے پاگلوں کی طرح ہر جگہ ڈھونڈتا پھر رہا ہوتا ہے۔۔ دعا خان کی ماں صدمے سے مر جاتی ہے۔۔دعا خان اس فارم ہاؤس سے بھاگنے کی ایک دو کوششیں کرتی ہے جو کہ ناکام ہوتی ہیں۔۔ اور اذہان سکندر حیات اسے بھاگنے سے روکنے کے لیے اسکے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتا ہے۔۔ اور پھر ڈیڑھ مہینے بعد اپنا بدلہ پورا ہونے کے بعد وہ دعا خان کو چھوڑ دیتا ہے۔۔ دعا خان واپس آجاتی ہے معارج سفیان بہت خوش ہوتا ہے اور دوبارہ سے انکی شادی ہوتی ہے اور دعا اذہان سکندر حیات کا جنون بن جاتی ہے وہ یہ شادی رکوانے نکل پڑتا ہے اور پھر راستے میں اسکا خطرناک ایکسیڈینٹ ہو جاتا ہے وہ بڑی طرح سے جھلس جاتا ہے ۔۔