ezreaderschoice

Novels World

Mery alfaz main lipty huye taboot na khool by Zunaira Bano

” میرے الفاظ میں لپٹے ہوۓ تابوت نہ کھول “

از زنیرہ بانو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا قلم جامد تھا، بالکل جیسے وہ خود۔۔۔

سفید اوراق اس کے سامنے تھے، قلم کی نوک سے گرتی نیلی روشنائی آج بھی کل کی طرح تازہ تھی۔ وہ لکھنا چاہتا تھا، لکھنے کے لیے بہت کچھ تھا۔۔۔

دنیا شر سے زخم زخم تھی اور اس کے الفاظ اس کے لیے مرہم ہوتے۔

وہ البرتو تھا۔۔۔ زمانے کا مشہور لکھاری۔ لوگ کہتے اس کے قلم میں جادو ہے، اس کی تحاریر پڑھتے، اس کی کتب خریدتے۔ وہ حقیقت شناس تھا۔ اس کے مصنوعی لفظ جب حقیقت کا احاطہ کرتے تو پہلے ان میں جان آجاتی اور پھر ان لفظوں کو دل میں اتارتے مردوں میں جان آجاتی۔

اسے دھچکا لگا جب اس کی تازہ ترین کتاب کے پہلے ایڈیشن کو صرف دو سو لوگوں نے خریدا۔

اس نے اپنی ہی کتاب کو بار بار پڑھا۔ کیا اس نے بار لکھنے میں کوئی کسر چھوڑ دی؟ کیا الفاظ میں جان ڈالنے میں کمی رہ گئی؟ کیا موضوع پیچیدہ ہو گیا؟ کردار زیادہ ہو گۓ؟

اس نے عنوان بدلا۔ کہانی بھی بدلی۔ ایک نئی کتاب لکھی۔ اب کی بار معاشرے کی حقیقی زندگی کو زیرِ بحث لایا۔ خوبصورت منظر کشی، جاندار کردار، دلکش الفاظ۔۔۔

مُٹھی بھر لوگوں نے اس بار اس کی تحریر پڑھی۔ ان میں سے بھی نصف نے شدید تنقید کا حملہ کیا۔

البرتو کا دل دُکھا۔۔۔ کیا اس کے الفاظ میں اب جان نہیں رہی تھی؟ وہ اپنے لکھنے کے فن میں یکتا تھا۔ تو اب اس کا قلم دلوں پر اثر کرنے سے عاجز کیوں تھا۔۔۔

دنیا زخم زخم تھی۔ وہ لکھاری تھا، تلوار کمان اس کا ہتھیار نہیں۔ وہ بس لفظوں کا جادو چلاتا۔ سو اس نے اب بھی کیا لیکن لوگ۔۔۔ اس کے لِکھے سے مطمئن نہیں تھے، اس کے لِکھے سے لاپروائی برت رہے تھے۔

اس نے قلم رکھ دیا۔

اوراق سفید ہی رہ گۓ۔ وہ کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا۔ قلم روشنائی اور کاغذ قریب تھے۔ کھڑکی کے اس پار تاریک دنیا میں جیسی اماوس کی رات کی پرچھائی تھی۔

سان فرانسیسکو سے نکلتی ٹرین نکلتی نظر آئی۔ ساتھ ہی اسٹیشن پر بُک سٹال نظر آیا۔ چند کتابیں قرینے سے سجی تھیں اور وہ کتابیں۔۔۔۔ شاید بس سجنے کے لیے ہی تھیں۔ البرتو کی بھوری آنکھیں دور بھوری گرد پر جم گئیں جو کتابوں کو لپیٹ میں لیے ہوۓ تھی۔

الفاظ مردہ نہیں ہوتے۔ جو ان میں چھپے تابوت کھولنا چاہے، محسوس کرنا چاہے، موقف سمجھنا چاہے، الفاظ سامنے ہیں۔

البرتو نے قلم اٹھایا۔

اس کے الفاظ اب بھی وہی جادو لیے تھے۔ بس زخم زخم دنیا اب زخموں کی اتنی عادی ہو گئی تھی کہ اس مرہم کی ضرورت نہ تھی۔ وہ جھوٹ، فریب جیسی برائیوں کے گھاؤ سے چور ہے۔ دن بدن اس جہالت کی اتھاہ گہرائی میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ لیکن کچھ سمجھنے کو تیار نہ ہے۔ اس میں بستے لوگ خود کو سدھارنے کے لیے تیار نہ ہیں۔

الفاظ جبھی تو مُند ہیں۔ ان کا اثر کند ہیں۔

البرتو نے قلم کو روشنائی سے بھگویا۔ سفید ورق سامنے رکھا۔

وہ نہیں جانتا تھا وہ اپنے الفاظ کو مزید بہتر کر پاتا ہے یا نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ اپنے الفاظ سے دنیا کو جگا سکتا ہے یا نہیں۔ لیکن اس نے ٹھان لیا۔۔۔ دنیا لاکھ لاپرواہ سہی، وہ اس نظراندازی سے لکھنا نہیں چھوڑے گا۔

منشی پریم چند نے کہا تھا:

“میں چراغ ہوں اور جلنے کے لیے ہوں۔”

تو روشنی ہمیشہ ایک جیسی رہے گی۔ تاریکی میں خوب چمکے گی۔۔۔

کھڑکی کے اّس پار البرتو لکھنے میں مگن تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد


Notice: ob_end_flush(): Failed to send buffer of zlib output compression (0) in /home5new/ezreader/public_html/wp-includes/functions.php on line 5420