Sabaz qadam se mubarak qadam by Kanzul Hayya pdf
Sabaz qadam se mubarak qadam by Kanzul Hayya pdf Likhari Novels – دل چھو لینے والے اردو افسانے اور ناولز کی دنیا اگر آپ اردو… Read More »Sabaz qadam se mubarak qadam by Kanzul Hayya pdf
Sabaz qadam se mubarak qadam by Kanzul Hayya pdf Likhari Novels – دل چھو لینے والے اردو افسانے اور ناولز کی دنیا اگر آپ اردو… Read More »Sabaz qadam se mubarak qadam by Kanzul Hayya pdf
Ujray diyar by Asra Khan Complete novel Likhari Novels – دل چھو لینے والے اردو افسانے اور ناولز کی دنیا اگر آپ اردو ادب کے… Read More »Ujray diyar by Asra Khan Complete novel
کبھی دوستیاں محبتوں سے بڑھ جاتی ہیں،
کبھی یاریاں امتحان بن جاتی ہیں…
اور کبھی وقت ان رشتوں کا اصل چہرہ دکھا دیتا ہے۔
🌸 “یـــاریاں” ایک ایسی خوبصورت کہانی ہے جو محبت، قربانی اور دوستی جیسے نازک جذبوں کو دل سے بیان کرتی ہے۔
💭 کیا ہر گہری دوستی محبت بن جاتی ہے؟ یا کچھ یاریاں صرف آزمائش ہوتی ہیں؟
جانیے اس مکمل ناول میں…
Chand se bichra tara main by Gazi Sikendar Complete pdf Chand se bichra tara main by Gazi Sikendar Complete pdf Available to read online and… Read More »Chand se bichra tara main by Gazi Sikendar Complete pdf
Hum nasheen by Ishrat Rajput Complete pdf Hum nasheen by Ishrat Rajput Complete pdf Available to read online and Download PDF . This is story… Read More »Hum nasheen by Ishrat Rajput Complete pdf
Digest Novels – A Gateway to Engaging Stories Kozah gar by Rukhsana Nigar Adnan Available to read online and Download PDF . This is digest story… Read More »Kozah gar by Rukhsana Nigar Adnan
Mohabbat ki jeet by Sundas Jabeen Complete Novel PDF Mohabbat ki jeet by Sundas Jabeen Complete Novel PDF This is social romantic Urdu novel based… Read More »Mohabbat ki jeet by Sundas Jabeen Complete Novel PDF
Tum ko paa liya by Sidra Ijaz Complete Novel PDF Tum ko paa liya by Sidra Ijaz Complete Novel PDF This is social romantic Urdu… Read More »Tum ko paa liya by Sidra Ijaz Complete Novel PDF
“ملک سے باہر جا رہے ہو؟”اس کے قریب آتے
چند انچ کا فاصلہ رکھے وہ مسکرائی تھی۔اسے اپنے اتنے قریب دیکھتے شایان کو اب سانس بھی مشکل ہی آئی تھی۔
“ہاں!لیکن تم یہاں۔۔۔!”
“ہاں میں یہاں۔۔۔!”مزید قریب ہوتے اپنی انگلی
اس کے دل کے مقام پر رکھے عنادل آج اسے
چاروں خانے چت کر گئی تھی۔
“کون سے ملک جا رہے ہو؟”دو قدم دور ہوتے ہاتھ باندھے عنادل نے لبوں پر دل فریب مسکراہٹ
بکھیرے خوشدلی سے پوچھا تھا،جبکہ آنکھوں میں ہنوز شرارت تھی۔
“لندن۔۔۔!”شایان کے چہرے کا رنگ بالکل فق تھا۔
“کب کی فلائٹ ہے؟”آنکھوں کو معصومیت سے
گھماۓ ایک اور سوال پوچھا گیا تھا۔
“آج رات کی۔۔۔!”عنادل یہاں کیوں آئی تھی اور
ان سب سوالات کا مقصد۔۔۔؟
“ہممم۔۔۔!”عنادل نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
“لیکن تم۔۔۔!”
“چٹاخ۔۔۔!”
معمول کے طابق آج شایان کو پھر اپنی متاع جان کا محبت بھرا تمانچہ پڑا تھا۔وہ بیچارا ابھی شاک کی کیفیت میں ہی تھا کہ
عنادل نے ایکدم ہی غصے سے آگے بڑھ اس کا
گریبان پکڑا تھا۔
“کیوں۔۔۔؟وہاں تمہاری بیوی رہتی ہے یا بچے۔۔۔؟جن کے پاس جانے کے لیے تم اتنے بےتاب ہو
رہے ہو۔۔۔؟”
“عنادل میں۔۔۔!”
“کیا میں۔۔۔ہاں کیا میں۔۔۔جب تمہاری
بیوی پاکستان
میں ہے تو تم لندن کیا کرنے جا رہے ہو؟بولو۔۔۔!”وہ رو دی تھی۔
“دل۔۔۔!”شایان نے اس کی آنکھ سے گرتے موتیوں
کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چنا تھا۔
“پلیز مت رو۔۔۔!”اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں
کے پیالے میں بھرتے شایان نے التجا کی تھی۔
“تمہیں کیا فرق پڑتا ہے،تم تو جا رہے ہو نا مجھے
چھوڑ کر۔۔۔!”اس کی گہری آنکھوں میں دیکھے اس نے معصومیت سے شکوہ کیا تھا۔
“تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ چلے جاو۔”
“میں نے کہا اور تم نے مان لیا۔”اسے پیچھے کی
طرف دھکیلتے وہ اب شکوے پر شکوہ کر
رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ہائے مجھے اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں ہیں۔”عنایہ
نے آکسائیڈ ہوتے ہوۓ کہا تھا۔وہ دونوں
اس وقت کافی پینے کیفٹیریا آئے تھے۔
“مجھے بھی۔۔۔!”ارمان بھی مسکرایا تھا۔
“اب اگلا نمبر ہمارا ہے۔”ٹھوڑی پر ہاتھ جمائے عنایہ نے ارمان پر محبت بھری نگاہ ڈالی تھی۔
“ہائے۔۔۔!”وہ بھی آکسائیڈ ہوا تھا۔شایان اور
عنادل کی شادی سے وہ دونوں ہی بہت
خوش تھے۔
“مجھے تو بہت حیرت ہو رہی ہے کہ میری بہن
کی شادی آپ کے دوست سے ہو رہی ہے۔”
“مجھے بھی۔۔۔!”وہ دونوں ہی ہر چیز سے بے خبر
تھے۔
“ویسے رشتہ کب بھیجوں۔۔۔؟”عنایہ کے بغیر
رہنا اب اس کے لیے بہت مشکل ہو چکا تھا۔
“ابھی ان دونوں کی شادی تو ہونے دیں،اور ویسے
بھی میری کچھ شرائط ہیں۔”
“کیسی شرائط۔۔۔؟”اس کا ماتھا ٹھنکا تھا۔
“میں آپ سے اسی شرط پر شادی کروں گی
جب آپ مجھے ساری اسائمنٹس بنا کر دیں
گے اور مجھے ہمیشہ ہر ٹیسٹ اور پیپر میں فل
مارکس دیں گے۔”
“What…?”
وہ تقریبا چیخ اٹھا تھا۔
“آپ اپنے پروفیسر سے اسائمنٹس بنوائیں گئی؟”وہ جیسے یقین کرنا چاہتا تھا۔
“اگر ان محترم پروفیسر صاحب کو مجھ سے
شادی کرنی ہے تو یہ تو کرنا ہی پڑے گا۔”معصومیت سے آنکھیں مٹکاۓ وہ ارمان کو بہت بڑا جھٹکا دے گئی تھی۔
“یہ زیادتی ہے۔”ارمان نے دبا دبا سا احتجاج کیا تھا۔
“جو بھی ہے۔۔۔!”عنایہ نے لاپروائی سے شانے اچکائے تھے جس پر ارمان نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تم نے میرے لیے کوئی ویڈنگ گفٹ تو نہیں لیا نا۔۔۔؟” شہادت کی انگلی کو اپنے دانتوں تلے
دبائے وہ اضطراب سے گویا ہوئی تھی۔
“اگر تم نے ابھی تک نہیں لیا نا تو مت لینا۔۔۔!”
“کیوں۔۔۔؟”ماتھے پر شکنیں ابھری تھیں۔
“گفٹ مجھے اپنی مرضی کا چاہئے۔”وہ ایکدم
ہی ریلیکس ہوا تھا۔
“وہ تو تم لے لینا مگر ویڈنگ گفٹ تو
میں اپنی مرضی سے دوں گا۔”
“نہیں!میرا مطلب ہے کہ میں نے
ہمیشہ سے یہ
سوچا ہوا تھا کہ جب بھی میری شادی ہو گی
تو میں شادی کی پہلی رات اپنے شوہر سے یہی
تحفہ مانگوں گی۔”وہ اب بھی مضطرب تھی۔
“اچھا!تو کیا چاہیے میری جان کو۔۔۔؟”
“جو مانگوں گی دو گے؟”ایک لمحے میں شایان کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔وہ کہنا چاہتا تھا کہ
آخر میرے پاس ہے ہی کیا؟
“ہممم۔۔۔۔!”مگر وہ بس اتنا ہی کہہ سکا تھا۔
“کیا تم کل رات شادی کے تحفے کے طور پر مجھے
سورت محمد سنا سکتے ہو،میرا مطلب ہے میری ہمیشہ
سے یہی خواہش تھی کہ میرا شوہر جو بھی
ہو میں اس سے یہی فرمائش کروں گی کہ وہ
مجھے ایک سورت حفظ کر کے سنائے۔میں جانتی
ہو یہ بہت مشکل ہے مجھے تمہیں پہلے بتانا
چاہیے تھا مگر تم فکر مت کرو تم جتنی آیات
باآسانی یاد کر سکو کر لینا نہیں تو دیکھ کر پڑھ دینا۔”عنادل کی اس لمبی تمہید پر وہ مسکرا
دیا تھا۔وہ خاص تھی بہت خاص تو اس کی
فرمائش کیسے عام ہو سکتی تھی؟
“سترہ سال چھوٹی ہے وہ تم سے”
“مجھے پروا نہیں ہے”
“زریام کبھی نہیں مانے گا”
“مجھے انکی اجازت نہیں چاہیے”
“حورم بھی نہیں مانے گی”
اسٹڈی روم میں چند لمحوں کی خاموشی چھا گئی
”حورم مان جائے گی نہ مانی تو یہ اسکی اپنی غلطی ہے”
اسنے ضدی انداز میں کہا
“آپ جانتی ہیں نہ مام ڈیڈ ہمیشہ کہتے تھے کہ ارتضیٰ اپنی چیزوں کے معاملے میں بہت پوزیسو ہے وہ غلط نہیں کہتے تھے میں واقعی میں اپنی چیزوں کے معاملے میں بہت پوزیسو ہوں پھر چاہے وہ کوئی بےجان چیز ہو یا جاندار”
“حورم کوئی چیز نہیں ہے ارتضیٰ”
“بلکل وہ کوئی چیز نہیں ہے وہ ایک انسان ہے جس کے احساسات ہیں جذبات ہیں لیکن میں کیا کروں اسے چھوڑنا میرے بس میں نہیں ہے”
“وہ لڑکی میری سانسوں میں بستی ہے وہ میری سانسوں کی ڈور ہے اور اگر حورم شاہ ارتضیٰ آفندی سے دور ہوئی تو یہ ڈور ٹوٹ جائے گی”
اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے چلا گیا جبکہ وہ بھیگی آنکھیں لیے وہیں بیٹھی رہی
اسنے اور احسان نے ارتضیٰ کو ہمیشہ لاڈوں میں پالا تھا وہ ضدی بچپن سے تھا اگر کسی خواہش کا اظہار کردیتا تو اسے پوری کرکے دم لیتا تھا اسکی ضد پر ان دونوں نے کبھی کچھ نہیں کہا تھا
لیکن اگر حفضہ کو اندازہ ہوتا کہ اسکی یہ ضد آگے جاکر یہ روپ اختیار کرنے والی ہے تو وہ کبھی بھی اسکی بےجا ضد پوری نہیں کرتی
یہ کیسی محبت تھی جس میں وہ اپنی محبت کی خوشی ہی نہیں دیکھ رہا
یہ بات وہ اسے سمجھا نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ خود جانتی تھی کہ ارتضیٰ کے لیے حورم محبت نہیں تھی
اسکا عشق اسکا جنون تھی محبت ہوتی تو وہ شاید چھوڑ دیتا
لیکن وہ محبت نہیں تھی وہ اسکا پاگل پن تھی جسے وہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنے والا تھا