Junoon mir hadi shah by Laiba Irshad Complete pdf
🔥 محبت؟ یا جنون؟
جب عشق حدیں توڑ دے، جب انا اور شدت ٹکرا جائیں –
تب جنم لیتا ہے ایک ایسا عاشق… جیسے میر ہادی شاہ۔
ایک بے رحم سا دکھنے والا کردار، جس کا دل فقط ایک نام پر دھڑکتا ہے۔
🔥 محبت؟ یا جنون؟
جب عشق حدیں توڑ دے، جب انا اور شدت ٹکرا جائیں –
تب جنم لیتا ہے ایک ایسا عاشق… جیسے میر ہادی شاہ۔
ایک بے رحم سا دکھنے والا کردار، جس کا دل فقط ایک نام پر دھڑکتا ہے۔
کبھی دوستیاں محبتوں سے بڑھ جاتی ہیں،
کبھی یاریاں امتحان بن جاتی ہیں…
اور کبھی وقت ان رشتوں کا اصل چہرہ دکھا دیتا ہے۔
🌸 “یـــاریاں” ایک ایسی خوبصورت کہانی ہے جو محبت، قربانی اور دوستی جیسے نازک جذبوں کو دل سے بیان کرتی ہے۔
💭 کیا ہر گہری دوستی محبت بن جاتی ہے؟ یا کچھ یاریاں صرف آزمائش ہوتی ہیں؟
جانیے اس مکمل ناول میں…
Jaan e Azeez Season 2 ( Tiger ) by Soni Mirza Complete pdf ADVENTURE BASED NOVELS, AFTER MARRIAGE STORY, FORCED MARRIAGE, HERO GANGSTER BASE NOVELS,… Read More »Jaan e Azeez Season 2 ( Tiger ) by Soni Mirza Complete pdf
Fidaa e janaa by Beenish Arslan (Biya Writes) Season 2 Novel Fidaa e janaa by Beenish Arslan (Biya Writes) Season 2 Available to read online… Read More »Fidaa e janaa by Beenish Arslan (Biya Writes) Season 2
Dard e Dil Season 2 by Asra Khan Complete After marriage story Forced Marriage Friends Base Novels Rude Hero Base Novels Rude Heroine Novels Sequel… Read More »Dard e Dil Season 2 by Asra Khan Complete
Raaj novel by Ali Chapter III Complete…True Story Obsession by Ali Chapter 1 Complete novel (True Story) Khoj novel by Ali Chapter II Complete…True Story… Read More »Raaj novel by Ali Chapter III Complete…True Story
یہ کہانی پارس اور وجیح کی ہے….
پارس نے زندگی میں اتنے دھوکے کھائے تھے کے وہ کسی پر بھی بھروسہ نہ کر پاتی تھی…
پھر بھی وہ اس کے قریب ہو چلی تھی….
پر اسکے ساتھ پھر سے وہی ہوتا ہے..
جو ہمیشہ سے ہوتے آیا تھا…
پر اس بار سب کچھ بہت مختلف اور الجھا سا تھا.
پارس تھک ہار کے اللہ کی طرف رجوع ہوئ….
اور زندگی کی طرف پھر سے آگے بڑھی.
پر پھر سے وجیح اسکے سامنے آ پہنچا….
اور اب اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی محبت سے بدلہ لیا..
Sy****************@gm***.com
یہ اٹلی کی شام کا حسین منظر تھا جہاں سب مرد اور عورتیں اس شام کے حساب سے خوبصورت ملبوسات میں ملبوس دنیا کی سب سے بڑی نیلامی کی تقریب میں موجود تھے بڑے بڑے بزنس مین اور سیاستدان کے ساتھ شاہی خاندانوں کے بڑے بڑے لوگ لیونیراوڈو دا ونسی( Leonardo da Vinci)
کے آرٹ کی تخلیق کی دنیا کی دوسری مہنگی پینٹنگ کی نیلامی ہونے جا رہی تھی اور دنیا کے خرب پتی اور ارب پتی لوگ
بے چینی سے اس نیلامی کے شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے
لیو نیراوڈو ر دا ونسی کے آرٹ کی بہترین تخلیق میں سے ایک تھی جسے Salvator Mundi کے نام سے جانا جاتا تھا اور اس وقت اسکا مالک “بدر بن عبدا ﷲ بن السعود” تھا جو کہ سعودی عرب کا کلچر منسڑ اور شاہی خاندان سے تھا۔ اسنے اٹلی
کے Doge’s Place میں اس نیلامی کی تقریب کا انعقاد کیا تھا۔
اتنے میں پیلس کے مین گیٹ پر نیوی بلیو رنگ کی
Mercedes Maybach Exelero
آ کر رکی تھی۔اور اسکے پیچھے اسکے گارڈز کی گاڑیوں بھی موجود تھی ایک گارڈ نے آ کر گاڑی کا ڈور اوپن کیا۔
جس میں سے تقریباً پینتیس برس کا جوان آنکھوں پر بلیک گلاسز لگائے باہر نکلا تھا جو اس وقت آف وائٹ برانڈڈ فور پیس میں ملبوس تھا ہاتھوں میں مہنگی ترین گھڑی پہنے پیروں میں براؤن لیدر کے شوز پہنے بالوں کو نفاست سے جیل سے سیٹ کیے
وہ پیلس کے مین دروزے کی طرف بڑھا جہاں ریڈ کارپٹ بچھا ہوا تھا۔اندر داخل ہوتے ہی ایک انگریز لڑکی جو یونیفارم میں پہنے سب کے انیوٹیشن کارڈ کو سکین کرتے انہیں ویلکم کر رہی تھی۔
Welcome Sir please Show me your Invitation card…!
وہ لڑکی مسکراتے ہوئے بولی تو اسنے اپنے کوٹ کی پاکٹ سے اپنا انیوٹیشن کارڈ نکال کر اس لڑکی کو دیا جو وہ ڈیوائس پر سکین کرتے چیک کرنے لگی ڈیوائس سے اپروول ہونے کے بعد اس لڑکی کے انیوٹیشن واپس کیا۔
Thanks Goldy Sir Her The way you can go and
Have a good day…!
وہ لڑکی ہاتھ کے اشارہ سے اسے راستہ بتاتے مسکراتے ہوئے دوسرے مہمانوں کی طرف متوجہ ہو گئی۔
اسنے اندر داخل ہوتے اپنی شارپ نگاہوں سے چارو طرف کا جائزہ لیا سکیورٹی کا ہائی انتظام کیا گیا تھا۔
جب وہی کی انتظامیہ لڑکی نے اسے چہرے پر لگانے کے لیے ماسک کی ٹرے پکڑے ماسک آفر کیا۔
No Grazie
(نہیں شکریہ)
وہ اٹالین زبان میں بولتے شکریا ادا کرتے آگے بڑھنے لگا تو وہاں پاس کھڑے پچاس برس افریقن آدمی نے اسے روکا۔
آپکو یہ ٹرائے کرنے چاہیے دیکھیں کتنے خوبصورت ہیں اس افریقن حبشی آدمی نے اسے فرینڈلی لگانے کا کہا یقیناً وہ بھی کوئی بزنس مین تھا جو اس نیلامی میں آیا تھا۔
نہیں شکریا میں ایسے ہی ٹھیک ہوں وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
تو وہ افریقن حبشی آدمی اسے دیکھ کر مسکرایا جیسے اسے بہت اچھے طریقے سے جانتا ہو ۔۔۔۔
ہال میں سب کیسا لگ رہا ہے وہ آگے بڑھتے وہ اپنے کان میں لگے ائیر پیس میں ہال میں موجود بڑے بڑے بزنس مین اور سیاستدانوں کو دیکھتے بولا ان میں کہی لوگ شاہی گھرانوں سے بھی موجود تھے۔
بہت رئیسوں والی فیلنگ آ رہی ہے ایک خوبصورت نسوانی آواز گولڈی نے اپنے ائیر پیس میں سنی جو یقیناً ایما کی تھی
وہ لیڈیز تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھی وہاں موجود کئی لوگ اسے مڑ مڑ کر دیکھتے وہ ایک خوبصورت بلونڈ بالوں کے ساتھ سبز آنکھوں والی خوبصورت لڑکی تھی اور کوبرا کی ٹیم کا حصہ تھی لیکن کوبرا کی ٹیم کا حصہ ہونا وجہ اسکی خوبصورتی نہیں بلکہ اسکی کام میں قابلیت کے ساتھ مہارت تھی۔
اتنے میں بدر بن عبدا ﷲ السعود بھی وہاں آ گیا تو سب لوگ کرسیوں پر بیٹھ گئے اور نیلامی کی تقریب کا آغاز ہوا۔
اور ایک ہوسٹ سٹیج پر آ کر وہاں موجود ڈائیس پر کھڑی ہوئی…!!!!
میں ہو اپ کی ہوسٹ ایما۔۔۔۔۔
جی تو لیڈیز اینڈ جینٹل مین آپکے آنے کا بہت شکریہ جیسے کہ آپ سب جانتے ہیں آپکو یہاں صدی کی سب سے شاندار پینٹنگ کی نیلامی کے لیے مدعو کیا گیا دیکھتے ہیں کون قسمت والا ہوگا جو اسے حاصل کرے گا لیکن باقی سب دیدار کر سکتے ہیں اس شاہکار کا وہ اپنے ہاتھ سے سامنے موجود لال کپڑے ڈھکی ہوئی پینٹنگ کی طرف اشارہ کرتے بولا اور وہ لال کپڑا پینٹنگ سے ہٹا دیا گیا پینٹنگ ایک ڈیجیٹل تجوری میں موجود تھی جسکے لاک کو ان لاک کرنے کے تین مراحل تھی پہلا مرحلہ صرف اسکے مالک کے چہرے کو سکین کرتی تھی پھر دوسرے مرحلے میں اسکی مخصوص آواز کے کوڈ سے اور تیسرا مرحلہ اسکے فنگر پرنٹس سے کھلتی تھی پینٹنگ کو دیکھتے سب لوگ تعریف کرتے تالیاں بجانے لگے۔جی تو باقاعدہ نیلامی کا آغاز کرتے ہیں۔
کیوں نا پچاس پانچ کروڑ سے شروع کیا جائے وہ ہوسٹ پینٹنگ کی طرف اشارہ کرتے بولا
ٹائیگر پوزیشن پر پہنچ گئے وہ سامنے موجود پینٹنگ کو اپنی شارپ نگاہوں سے دیکھتے بولا جسے وہ جیسے شکاری اپنے شکار کو دیکھتا ہے۔
ہاں میں پہنچ گیا ہوں کوبرا اور سکارپیو کے قریب لوکیشن لے رہا ہوں وہ جیٹ بوٹ میں موجود سامنے ٹاور پر موجود اپنے سنائیپر ساتھی کو دیکھتے بولا جو دور بین کی مدد سے آس پاس کا جائزہ لے رہا تھا
تو پھر آج انہیں ڈی گینگ کا کمال دکھا دیتے ہیں وہ سامنے موجود پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے بولا۔
برو تجھے یاد ہے نا اپنی شرط اگر یہ پینٹنگ تو نا لے پایا تو تیری وہ
بلیک لگژری یاٹ میری ہوگی سکارپیو کی آواز ائیر پیس سے گونجی۔
دنیا کا ایسے کوئی کام نہیں ہے جو کوبرا نا کر سکے تم لوگ پارٹی کی تیاری کرو کیوں کہ آج یہ پینٹنگ تو ہم حاصل کر کے رہیں گے وہ سائیڈ سمائل پاس کیے بولا تو دوسری طرف سے ٹائیگر اور سکارپیو کا قہقہہ اسکے ائیر پیس میں گونجا۔
بالکل پیلس کے سامنے موجود بلڈنگ میں سی۔آئی۔اے کی ساری ٹیم موجود تھی جو کیمروں کی مدد سے اس تقریب پر نظر رکھے ہوئے تھی انہیں مخبری کی گئی تھی کہ آج یہاں دنیا کی
دوسری مہنگی ترین پینٹنگ گولڈی چورانے والا ہے اس لیے وہ پوری ٹیم اپنی انسپکٹر ریچل کے ساتھ وہاں موجود سب لوگوں پر نظر رکھ رہی تھی وہ کتنے مہینوں سے گولڈی کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ تھا کہ قابو آنے سے پہلے فرار ہو جاتا تھا۔
ذرا اس آدمی پر زوم کرنا انسپکٹر ریچل کمپیوٹر پر بیٹھے اپنے ٹیم میمبر کو دیکھتے بولی تو اسنے زوم کیا۔
مطلب خبر پکی تھی وہ گولڈی کے چہرے کو کمپیوٹر سکرین پر دیکھتے دانت پیستے بولی۔
Sono un agente di polizia, Rachel, dell’Unità Culturale Haritage, sei qui?
میں پولیس آفیسر ریچل ہوں کلچر ہیری ٹیج یونٹ سے کیا تم لوگ وہاں موجود ہو وہ کان میں لگے ائیر پیس میں بولی۔
تو نیلامی کی تقریب میں موجود پولیس والے جو عام کپڑوں میں ملبوس تھے انہیں نے اوکے بولا۔
آج دیکھتی ہوں گولڈی تم کیسے میرے ہاتھوں سے بچ کر جاتے ہو وہ غصے سے گولڈی کے چہرے کو سکرین پر دیکھتے ہوئے بولی۔
آج کی شام کے سب سے خاص مہمان کا بھر پور تالیوں میں سے استقبال کریں جو نا صرف سعودی عرب کے کلچر منسڑ ہیں بلکہ اس شاہکار کے مالک بھی ہیں وہ ہوسٹ بدر بن عبدا ﷲ السعود کو سٹیج میں آنے کی دعوت دیتے ہوئے بولا تو سب نے تالیاں بجاتے اس سعودی منسٹر کا استقبال کیا۔
جی تو قیمت لگانا شروع کرتے ہیں ایما پینٹنگ کی طرف دیکھتے بولا۔
تو وہاں موجود ایک آدمی اپنا ہاتھ اٹھاتے مائک میں پانچ ملین بولا۔
جی تو جرمنی سے پانچ ملین ایما بولی تو وہاں موجود دوسرے آدمی نے ہاتھ اٹھاتے بیس ملین بولا۔
جی تو آسڑیلیا سے بیس ملین ایما پھر سے بولی
پولیس والوں کی نظر گولڈی پر تھی جو ان آدمیوں کو بولی لگاتے دیکھ رہا جو کہ پچاس ملین تک پہنچ گئی تھی۔
ان کو لگتا ہے کہ وہ پرسکون زندگی گزارے گے غلط فہمی ہے تو بہت بڑی پر کوئی نہیں بہت ہی جلد دور بھی ہو جائے گی۔
مجھ سے میرا سب کچھ چھین کر وہ چین سے رہے اتنا شریف تو خیر کوئی مرد نہیں ہوتا۔
ایسا حشر کروں گا کہ اگلی ساتھ نسلوں تک ان میں سے کوئی مسکرا نا سکے گا پورا خاندان روئے گا تڑپے گا جینا بھول جائے گا۔ اور جب سارے زندہ لاش بن کر گھومیں گے تب جا کر میں مسکراؤں گا۔۔۔ میں ہنسوں گا۔
ہاں میں ہنسوں گا ان کے رونے پر ، تڑپنے پر، گھٹ گھٹ کے جینے پر، وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا مرر میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے کھلکھلا کر خود سے ہی باتیں کر رہا تھا۔
***
اب تم یہاں پر بیٹھ کر شاعری کرنا بند کرو اور میرے ساتھ چلو ازبیہ بھابھی تمہارا کب سے انتظار کر رہی ہیں؟
آریز نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ وہ آج بھی اتنا ہی خوبصورت تھا، وہی ماتھے پر بکھرے ہوئے بال، وہی شلوار قمیض پہنے، وہی ہلکی سبز آنکھوں والا خاموش مزاج لڑکا۔۔۔۔ اگرچہ حلیہ وہی تھا مگر اس ایک حادثے نے اس کی آنکھوں کی چمک چھین لی تھی وہ جو مسکراتا تھا تو کوئی بھی قائل ہو جاتا تھا وہ اب کہاں مسکرا سکتا تھا۔۔۔؟
ان تین مہینوں نے اس کے چہرے کی چمک چھین لی تھی اس کی آنکھوں کے نیچے حلقے تھے قبر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ نڈھال سا اٹھ کھڑا ہوا۔
آریز نے اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولا تو وہ چپ چاپ اندر بیٹھ گیا گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا گیا۔
زایان ۔۔۔!!!
“قلبِ سکون” ایک رومانی اور پیچیدہ کہانی ہے، جس میں انس قریشی اور اروبا سکندر کے کردار مرکزی ہیں۔ انس قریشی، نیویارک سے آیا تھا، اور اس کی کزن اروبا سکندر، جو “عشقِ نور” کے کردار ابرام سکندر کی بیٹی ہے، خدا کے قریب تھی۔ ابتدا میں انس کا دل دور تھا، مگر وہ اروبا کی محبت میں مبتلا ہو گیا۔
کہانی میں انس قریشی کی ہدایت، اروبا سکندر کی محبت اور ہارون ابراہیم کی ادھوری محبت بھی شامل ہیں۔ ہارون ابراہیم، جسے دو بار محبت ہوئی اور دونوں بار ناکام رہا، اس کہانی کا ولن بن گیا۔ وہ پہلے اروبا سے نفرت کرتا تھا، مگر پھر اس کا دل اس کی طرف مائل ہو گیا۔
انس، جو ابتدا میں اروبا کو پسند نہیں کرتا تھا اور بس اسے تنگ کرتا تھا، آخر کار اس کے دل کا سکون بن گیا۔ “قلبِ سکون” میں کئی اور کردار بھی شامل ہیں، مگر کہانی کا اصل محور انس اور اروبا کی محبت ہے۔
“قلبِ سکون” کو ردا نے 3 اکتوبر 2024 کو لکھنا شروع کیا تھا، اور اس کا اختتام کب ہو گا، یہ وہ نہیں جانتیں۔ یہ ناول ہمیشہ ان کا پسندیدہ رہے گا۔ ان کے پاس کہنے کو کچھ اور نہیں، مگر ایک رائٹر کے پاس ہمیشہ تخلیق کردہ خیالات اور کہانیاں ہوتی ہیں۔