“کہاں پھنس گیا یار….ابھی تک تو سب ٹھیک جا رہا ہے ،لیکن کل …کل کیا کروں گا میں ؟”۔وہ اسٹیج پہ بیٹھا اپنی سوچوں میں گم تھا جب سہراج کے پکارنے پر چونکا وہ اس کے منہ میں گلاب جامن ڈال رہا تھا ۔
“کیا کہوں گا ان سب کو؟کیا جواب دوں گا سب کے سوالوں کے ؟؟۔وہ آنے والے کل کو لے کر بہت فکرمند تھا ۔
“مہرین کو کیا جواب دوں گا ؟اور ماہی ۔۔۔۔ماہی سے نظریں ملا پاؤں گا کیا؟”۔سوچوں نے تو جیسے اسے گھیر لیا تھا ۔سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کرے تو کیا کرے۔
جو جھوٹ اس نے مہرین کو خود سے دور کرنے کے لیے بولا تھا اب وہ اس پہ پچھتا رہا تھا ۔
“کیا ضرورت تھی اتنی جلد بازی مچانے کی؟اتنی جلدی شادی والا بکھیڑا نہ کھڑا کرتے تو آج اتنی پریشانی نہیں ہوتی”۔اسے رہ رہ کر خود پہ غصہ آ رہا تھا ۔
جس لڑکی کا کوئی وجود ہی نہیں تھا….جو محض اس کی فرضی گھڑی گئی کہانی کا کردار تھی اس سے کیسے شادی کرے گا وہ؟کہاں سے آئے گی ایسی لڑکی؟۔
تو یہ طے تھا آج کی رات فاتح عالم کی سوچوں میں گزرنے والی تھی ۔نیند تو اس کی پچھلی کئی راتوں سے بے ترتیب ہو چکی تھی مگر آج وہ اس کے پاس بھی نہیں بھٹکنے والی تھی ۔یہ طے تھا ۔
جلد بازی میں لئیے گئے فیصلے اکثر نقصان کرواتے ہیں ۔
اب اس کا یہ فیصلہ اس کا نفع تھا گھاٹے کا سودا تھا یہ تو وقت طے کرے گا ۔
چونکہ ہر کہانی کا کوئی نہ کوئی ولن ہوتا ہے کوئی ایک ظالم کردار ہوتا ہے ۔
یہاں اس کہانی میں “وقت” ظالم “ہے۔
“قسمت”حاکم”ہے۔
“حالات “جلاد ہیں ۔
اور “انسان”محکوم و مظلوم “۔
سو یہ سب مل کر اس کہانی کو ایک نیا موڑ دینے والے تھے ۔
ایک ایسا نیا موڑ جو ان سب کی زندگیاں الٹ دینے والا تھا ۔
کیا پتا ؟زندگی الٹنے کے بعد حسین ہو جائے؟۔
کیا پتا ؟وہ الٹنے کے بعد بدترین ہو جائے؟۔
کیا پتا ؟؟؟