Skip to content
Home » Social media writers » Rimsha Hussain

Rimsha Hussain

Betab dil ki tamana hai by Rimsha Hussain Complete novel

  • by

“بکواس بند کرو اپنی میرے پاس اِتنا فضول ٹائیم نہیں جو میں تمہاری طرح نین مٹکا کرتا پِھروں۔۔”رائد نے کھاجانے والی نظروں سے اُس کو دیکھا

“آپ کا کتنا قیمتی وقت ہے اِس کا مجھے اندازہ اچھے سے ہوگیا ہے ہونہہ۔۔”آئے بڑے یہ پوچھنے والے کہ کیا باتیں ہوئیں۔۔”زیب نے سرجھٹکا

“تم انتہا کی کوئی بدتمیز اور گھمنڈی لڑکی ہو نجانے کس بات کا غرور ہے تم میں۔۔”اگر میری تمہاری جیسی کوئی بہن ہوتی تو اُس کا گلا میں خود اپنے ہاتھوں سے کاٹتا۔۔”رائد کھاجانے والی نظروں سے اُس کو دیکھا

“آپ کے سوال کا جواب آپ کے سوال میں ہیں۔۔”میں اونلی ایک پیس ہوں میرے بھائیوں کو اللہ نے جو بہن دی ہے وہ ہر آئے گئے کو اللہ نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے بس اللہ نے طریقے سے بنایا وہ طریقہ کسی اور پر نہیں کیا۔۔”آپ کے جیسے آپ کو بہت ملے گے لیکن میرے جیسا آپ کو کوئی نہیں ملے گا۔۔”زیب نے جتاتی نظروں سے اُس کو دیکھ کر کہا

“مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ایک دن تمہارا قتل میرے ہاتھوں سے ہوگا۔۔”رائد جو اُس کو تپانا چاہ رہا تھا اب خود آگ بگولہ سا ہوگیا “ڈریگن کی طرح منہ سے آگ نکل رہی ہے آپ سے اُففف گرمی۔۔”

Masoom sa Ishq by Rimsha Hussain Complete novel

  • by

“کیا لڑکی کو گولیاں لگیں ہیں؟

“لیکن آواز تو ہم نے نہیں سُنی

“بنا آواز کی ہوگی نہ

“پیٹھ اور کندھے پر لگتا ہے گولیاں لگیں ہیں

“ہر کوئی اپنے انداز مطابق بول رہا تھا لیکن ایک میثم تھا جو مشک کی بند ہوتی آنکھوں کو دیکھ کر تڑپ رہا تھا

“مش آن آنکھیں کھولو شاباش۔۔”میثم نیچے بیٹھتا چلاگیا۔۔”مشک کا سر اپنی گود میں رکھتا وہ پاگلوں کی طرح اُس کو ہوش میں لانے کی ناکام کوشش کرنے لگا

“بیٹا دیکھا پہلے زندہ بھی ہے یا نہیں۔۔”ورنہ جلدی سے ہسپتال لے جاؤ ٹائم ضائع نہیں کرو۔۔”ایک بزرگ نے اُس کی حالت کو دیکھ کر مشورہ دیا تو میثم نے سرخ نظروں سے اُنہیں دیکھا

“بیوی ہے میری اور زندہ ہے۔۔”مشک کو کسی چھوٹے بچے کی طرح اپنے سینے میں چُھپاتا وہ سب کو غُصے سے دیکھنے لگا

“کوئی پولیس اور ایمبولینس بلاؤ یہ لڑکا تو شاید ہوش گنوا بیٹھا ہے۔۔”ایک نے کہا تو سب نے اُس کی بات سے اتفاق کیا

“مش آنکھیں کھولو میں کیا بول رہا ہوں۔۔”آپ کو سُنائی نہیں دے رہا کیا؟”آپ کو شیزی بھائی کو سی آف کرنا ہے تو آئے اُٹھے اُنہیں سی آف کرنے چلتے ہیں کالج جانا ضروری نہیں۔۔”آپ کی سالگرہ ہے نہ آج؟”سرپرائز ابھی سے بتادیتا ہوں اُس کے لیے آپ کو یہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں جلدی سے مسکراکر اپنی آنکھیں کھولیں ورنہ میں بُرا پیش آؤں گا آپ سے۔۔”میثم اُس کے وجود سے بہتے خون کو جیسے دیکھ تک نہیں پارہا تھا۔ “یہ جو کچھ ہوا تھا وہ غیرمتوقع تھا جس کے ساتھ ہوا وہ اُس کی لاڈلی ہستی تھی اُس کو کچھ ہوا ہے یہ بات میثم جیسے سمجھدار مرد کے لیے قبول کرنا مشکل تھا میثم کا دماغ اِس بات کو ایکسپیٹ نہیں کرپارہا تھا۔۔”کچھ وقت بعد ایمبولینس آگئ تھی اسٹریچر لایا گیا تھا لیکن میثم مشک کو خود سے دور ہونے نہیں دے رہا تھا سختی سے اُس کو خود میں بھینچے میثم اُن سب پر برس رہا تھا جس سے مجبوراً کچھ آدمیوں نے اُس کو پکڑ کر روکا تو وہ سب مشک کو اسٹریچر پر ڈالنے لگے تو میثم خود کو آزاد کراتا اُن کے ساتھ ایمبولینس میں بیٹھتا مسلسل مشک کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہا تھا اُس کا گِرے فراک خون میں لت پت ہوگیا تھا خوبصورت چہرہ زردی مائل ہوگیا تھا۔۔”میثم کے کپڑوں تک مشک کا خون لگ گیا تھا

“یہ سب کیا؟”کیسے؟”اُس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا میثم بڑبڑانے لگا

“مش۔۔”میثم کھسک کر اُس کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ کیا