Skip to content
Home » Social media writers » Dua Fatima

Dua Fatima

Qaswah by Dua Fatima Complete novel

  • by

زندہ ہے پر مانگ رہی ہے جینے کی آزادی

دیو کے چنگل میں شہزادی یہ کشمیر کی وادی

حد نظر تک سرو و صنوبر ہیں بھی اور نہیں بھی

ظالم کے دربار میں جیسے مہر بہ لب فریادی

چھینتے ہیں ہونٹوں سے دعائیں اور سروں سے ردائیں

دشمن نے جن بھیڑیوں کو جنگی وردی پہنادی

شاید ایسے اک میت پامالی سے بچ جائے

ماں نے کم سن بچی کی دریا میں لاش بہادی

سوئے ہوئے ضمیر نے ابتک دروازہ نہیں کھولا

ہم نے تو ظلم کے پہلے دن زنجیر عدل ہلادی

حسن لکیریں کھینچ رہا تھا سادہ سے کاغذ پر

آزادی کا لفظ لکھا کشمیر کی شکل بنادی

غلام محمد قاصر۔۔۔

Ruby by Dua Fatima Complete novel

  • by

“آفیسر ہارون اینڈ آفیسر انشرہ۔ یہ بہت ہی بڑی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے آپ دونوں نے۔”، ہیرے کا مالک، نوید درانی کاٹ دار انداز میں ان سے بولا تھا۔ وہ تقریبا پچاس سال تک کا آدمی تھا جو نہایت باوقار شخصیت کا مالک تھا۔بھوری آنکھوں اور بھورے بالوں والا۔ چہرہ پہ اس وقت سختی کے آثار صاف واضح تھے۔ہاتھ پیچھے باندھے، اپنی نظروں کو ان دونوں پر ٹکاۓ وہ کب سے انہیں اچھی خاصی سنا رہا تھا۔

“میڈیا پہ یہ بات لیک نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں کچھ بھی کر کے، پرسوں ایونٹ سے پہلے پہلے روبی واپس یہاں، اس بکسے کے اندر موجود چاہئے۔”، نوید درانی نے ایک بار پھر کڑکتی آواز میں کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گيا۔ پیچھے وہ چھ لوگ ایک دوسرے سے نظریں چراتے کھڑے رہ گئے تھے۔ آفیسر ہارون اور آفیسر انشرہ کی کلاس ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔

“Look officers. Find the diamond as soon as possible. My whole team is going to come tomorrow to attend the event. Or should i say, the whole world…I am still regretting that why i chose this country for this event.”

“دیکھو آفیسرز۔جتنی جلدی ہو سکے ہیرا ڈھونڈو۔ میری پوری ٹیم یہ ایونٹ اٹینڈ کرنے کے لیے آ رہی ہے۔یا مجھے کہنا چاہئے کہ پوری دنیا۔۔۔مجھے اب تک پچھتاوا ہو رہا ہے کہ کیوں میں نے اس ایونٹ کے لیے یہ ملک چنا۔”، آسٹریلین عورت نخوت سے کہتی سر جھٹک کر وہاں سے چلی گئی تھی۔ پاکستان میں ہونے والا اس طرح کا یہ پہلا ایونٹ تھا۔ اور وہ بھی تقریبا بربادی کے دہانے پہ کھڑا تھا۔

“میری تو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ ہیرا چوری ہوا کیسے۔۔۔بالکل آخری لمحہ پر سائرن بجا، وہ بھی بکسے والا۔ لیزر کا سائرن کیوں نہیں بجا۔”، ایونٹ آرگنائزر نے ان دونوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوۓ ایک اور کمنٹ پاس کیا۔وہ دونوں لب دبا کر خود اسی کشمکش کا شکار تھے کہ آخر ہیرا چوری ہوا تو کیسے ہوا۔ ہارون نے تو اپنا بندہ تک متعین کیا ہوا تھا کیمرہ روم میں۔ پھر کیسے؟

“دیکھو ہارون۔ کہیں سے بھی، کیسے بھی ہیرا پرسوں سے پہلے پہلے یہاں موجود ہونا چاہئے۔ ورنہ سر اور میم تم لوگوں پہ کیس بھی کر سکتے ہیں۔ تم لوگوں کی کوئی کریڈیبلٹی نہیں رہے گی۔ تم دونوں کی جاب تک چلی جاۓ گی۔”، میوزیم مینجر نے ان دونوں کو دیکھتے ہوۓ کچھ نرمی سے کہا تھا۔ ان دونوں نے اب بھی سر جھکاۓ ہی سر اثبات میں ہلا دیا۔ وہ تمام ممکنات سے اچھی طرح واقف تھے۔اور یہی تو ساری ٹینشن تھی۔ ہیرا کہاں سے لے کر آئيں؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Aakhri Manzil by Dua Fatima Complete novel

  • by

“کون کہہ سکتا ہے کہ تم وہی حیدر ہو جو ہر وقت چوں چراں کرتا رہتا تھا۔۔۔چپ بیٹھنا تو حیدر نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ اب اتنے خاموش ہو۔ مجھے تو ٹینشن ہو رہی ہے۔”، صائم ٹلنے والا نہیں تھا۔ حیدر ہلکا سا مسکرایا۔

”تو آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہسپتال کے بیڈ پہ بیٹھ کے ڈانڈیا کھیلوں؟”، اس نے مذاق میں کہا تو صائم مزید قریب آیا۔

”زائرہ آئی تھی تم سے ملنے۔”، اس نے حیدر کے سر پہ بم پھوڑا تھا۔ حیدر آنکھیں پھیلاۓ اسے دیکھے گیا۔

”مگر تم ہوش میں ہی نہیں تھے تو میں نے ہی اسے کمپنی دے دی۔” صائم نے کاندھے اچکا کے کہا اور حیدر کے بے یقین چہرے کو دیکھا۔

”منہ بند بھی کر لو بھائی۔ مکھی گھس جاۓ گی۔”، اس نے شرارت سے کہتے ہوۓ حیدر کا منہ بند کیا۔

”کیا کہہ رہی تھی؟”، حیدر نے گجھ نارمل ہو کر پوچھا۔

”کہہ رہی تھی کہ کیا ہو گیا میرے فیوچر ہسبینڈ کو؟ میں کہیں شادی سے پہلے ہی بیوہ نہ ہو جاؤں؟”،صائم نے شرارت سے کہتے ہوۓ حیدر کی آنکھوں میں بڑھتی بے یقینی کو دیکھا اور ہنس پڑا۔

”ارے عیادت کرنے آئی تھی تمہاری اپنی ممی کے ساتھ۔۔۔لاہور سے اسپیشیلی تمہارے لیے آئی تھی۔”، صائم نے کہا تو حیدر نے تھوڑا سانس لیا۔

”اس کی ممی نے کچھ بتایا تھا ہماری ممی کو۔۔۔”، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد صائم نے سنجیدگی سے کہا تو حیدر کے کان کھڑے ہو گۓ۔

”رشتہ آیا ہے اس کا۔۔۔وسیم انکل کے کسی دوست کا بیٹا ہے۔ ان کے فیملی ٹرمز بھی ہیں اس فیملی کے ساتھ۔”، صائم نے کہا تو حیدر رخ موڑ گيا۔

“ابھی بھی وقت ہے حیدر۔۔۔رشتہ بھجوا دو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی اور کے نام کی مہندی لگا کر تمہیں اپنی شادی کے کارڈ کے ساتھ ساتھ مٹھائی کا ٹوکرا بھی بھیجے۔”، صائم نے کہا تو حیدر نفی میں سر ہلانے لگا۔

”نہیں۔ اسے میں نے کہا تھا کہ وہ میری پڑھائی ختم ہونے کا انتظار کرے۔ مگر وہ بضد ہے کہ ابھی ہی شادی کروں۔تو میں یہ نہیں کر سکتا۔”، اب کے وہ بولا تو آواز اور لہجے میں سنجیدگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

”اور اگر تمہاری اسی ضد کے چکر میں واقعی مٹھائی آ گئی نا تو رونے کے لیے اپنا کاندھا میں ہر گز مہیا نہیں کروں گا۔”، صائم نے کہا تو حیدر نفی میں سر ہلانے لگا۔

”نہیں، وہ ہاں نہیں کرے گی اس رشتے کو۔”، حیدر نے کہا تو صائم اسے گھورنے لگا۔

”کیوں؟ کیوں ہاں نہیں کرے گی؟”، صائم نے پوچھا تو وہ ہلکا سا مسکرایا۔

”وہ مجھ سے محبت کرتی ہے بھائی۔ اور میں بھی اسی سے شادی کروں گا۔”، حیدر نے کہا تو صائم نے گہرا سانس لیا اور کچھ قریب ہوا۔

”کبھی اپنی انا اور خوش فہمی کے خول سے نکل کر دیکھنا۔ دنیا بہت الگ ہے۔ ویسی بالکل نہیں ہے جیسی تمہیں نظر آتی ہے۔ زائرہ ایک لڑکی ہے۔۔۔اور وہ کب تک بنا کسی وجہ کے رشتوں کو ریجیکٹ کرتی رہے گی؟ ایک نہ ایک رشتے پہ تو ہاں کرنی ہی ہو گی نا اسے۔”، صائم نے کہا تو حیدر نے چہرہ موڑ کے اسے دیکھا۔

“کیا میری محبت کافی نہیں ہے رشتوں کو ریجیکٹ کرنے کے لیے؟”، اس نے پوچھا تو صائم نے ہلکے سے نفی میں سر ہلایا۔