Zawal e mohabbat by Sidra Kabeer Complete
رات کے دو بج رہے تھے۔۔کچھ سوچتے ہوۓ اسنے الماری کھولی تو اس نے غور کیا تو حیران رہ گئ اسکے پاس زیادہ تو سیاہ لباس تھے ایسا نہیں تھا کہ اسکا سیاہ پسندیدہ رنگ تھا اسے تو ہلکے رنگ پسند تھے۔۔۔
ایک دفعہ دایان نے اس سے پوچھا تھا کہ تمہارا پسندیدہ رنگ کونسا ہے تو ایشما ہنستے ہوۓ بولی میں نے کبھی غور نہیں کیا جو اچھا لگے لے لیتی ہوں وہ بولی۔۔۔
یہ کیا بات ہوئ کوئ تو ہو گا ۔۔۔۔
دیکھ لو دایان ملِک جسے اپنا پسندیدہ رنگ تک معلوم نہ تھا وہ سیاہ رنگ میں لپٹ کر بے ڈھنگی سی ہو گئ ہے۔۔۔۔
تم نکل کیوں نہیں جاتے میرے دماغ سے۔۔۔وہ روتے ہوۓ بولی۔۔۔
اس نے اپنے شوز ریک دیکھا تو وہاں ایک بھی جوگر یا کوئ سنیکر نہیں تھا۔۔۔بس سینڈلز اور کچھ ہیلز رکھی تھیں۔۔۔۔ہاں اسے یاد آیا اس نے سندھ سے آنے کے بعد تو ایک بھی شوز نہیں تھا خریدا ۔۔۔ رات کے اس پہر اسے پھر سے سب یاد آ رہا تھا۔۔۔۔۔
اسے یاد آیا اس نے آیان سے سوال کیا تھا کہ انسانوں کا بیچھڑنا ہمیں رلاتا ہے یا انکی یادیں۔۔۔
آج اسے جواب مل گیا تھا ۔۔۔۔پہلے انسانوں کا بیچھڑنا رلاتا اور پھر ساری زندگی ان سے جڑی یادیں رلاتی ہیں۔۔۔۔۔۔
کافی دیر رونے کے بعد اسے اَمن کا خیال آیا تو جلدی سے منہ دھویا۔۔۔
منہ دھو کہ وہ واپس آئ تو کھڑکی پر آہستہ سی دستک ہوئ ۔۔۔
اسکے لبوں پر مسکراہٹ رینگی وہ ابھی بھی نہ بدلا تھا ۔۔۔۔۔
کھڑکی کھولتے ہی وہ آہستہ سے بولی یہ کیا ہے اَمن سیدھے رستے سے نہیں آ سکتے ہمیشہ یہی سے کیوں آتے ہو؟؟
بس میرا دل کرتا ہے کہ میں لٹک لٹک کر ایشما خان کے پاس آؤں ۔۔۔وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بولا۔۔۔۔۔
ہاہاہا ویری فنی کسی دن گر گۓ با ہیرو پنتی نکل جاۓ گی۔۔۔۔وہ بولی۔۔۔۔
اچھا چھوڑو یہاں آؤ وہ صوفے کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔۔۔۔
تم روئ تھی کیا؟ اسنے پوچھا
نہیں ابھی سو کہ اٹھی ہوں اسنے جھوٹ بولا ۔۔۔
لگ تو نہیں رہا لیکن مان لیتا ہوں۔۔۔۔وہ بولا ۔۔۔
کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ اسی رستے سے چلا گیا جہاں سے وہ آیا تھا۔۔۔۔۔
_________________________________________
آج اَمن کو گۓ ہوۓ تین دن ہو گۓ تھے۔۔۔۔۔
ایشما ایسے ہی گھر میں بور ہو رہی تھی۔۔ تو فاطمہ آنٹی کی طرف چلی گئ۔۔۔
وہ ایشما کو دیکھ کہ بہت خوش ہوئیں اور بولیں بیٹا تمہارا اپنا گھر ہے ۔۔۔۔یہی ہی تمہیں آنا ہے۔۔۔۔
جی آنٹی مجھے بھی اچھا لگتا ہے یہاں آکر وہ خوش ہوتے ہوۓ بولی۔۔۔۔
باتوں کے ساتھ ساتھ وہ میدے اندر انڈا مکس کرنے لگی فاطمہ انٹی کے ساتھ مل کر وہ کیک بنانے لگی۔۔۔۔۔۔
اصل میں خود کو مصروف کرنے کا بہانا تھا۔۔۔وہ کسی بھی طرح سندھ کی یادوں سے فرارا چاہتی تھی۔۔۔۔
وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہی تھیں جب ملازم نے آکر بتایا کہ بی بی جی باہر پولیس والے آۓ ہیں ۔۔۔۔
فاطمہ بولیں اللّٰہ خیر کرے ایشما بھی ہاتھ دھو کر باہر لان میں آگئ۔۔۔
دو پولیس والے ایک بڑا سا لکڑی کا ڈبہ اٹھاۓ اندر آ رہے تھے ایشما کو لگا فضا میں آکسیجن کی کمی ہو گئ ہے۔۔۔۔اسے لگا وہ سانس نہیں لے سکے گی ۔۔۔۔۔سب کچھ سلو مو میں ہو رہا تھا۔۔انکل اکرم بھی آ گۓ تھے شاید انکو پہلے ہی انفارم کر دیا گیا تھا۔۔۔۔
پولیس والے اب اس لکڑی کے ڈبے کو زمیں پر رکھ کر فوجی سٹائل میں سلام کر رہے تھے۔۔۔۔۔
ایشما نے بے اختیار اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اسے لگا اسے سانس نہیں آ رہی۔۔۔
پولیس والے اب شاید ڈھکن اٹھا رہے تھے۔۔۔۔
ایک دفعہ پھر سے اسکے ساتھ یہ سب ۔۔۔۔۔
اسے یہ دو قدم بھی اتنے بھاری لگے جتنے اسے سندھ میں وہ کاغذات لگے تھے۔۔۔۔۔
آگے بڑھ کر اس نے دیکھا تو وہ اَمن ہی تھا ۔۔۔دائیں جانب کو منہ ، اور وجود پاکستان جھنڈے میں لپٹا ہوا تھا ۔۔۔۔۔وہ تو اسے انتظار کا کہہ کر گیا تھا بول کر گیا تھا کہ جلدی آ جائے گا۔۔۔۔۔۔ تو کیا انتظار کے بعد یہ دکھ دیا اَمن تم نے مجھے۔۔۔۔۔
اسے لگا اگر وہ ابھی نہیں روۓ گی تو اسکا دل پھٹ جاۓ گا۔۔۔۔
دل پر ہاتھ رکھ کر وہ ایکدم چیخ کر رو دی۔۔۔۔۔
زاہرہ نے ایشما کو سہارا دیا اس معلوم نہ ہوا وہ لوگ کب آ ۓ تھے۔۔۔
ایشما روتے ہوۓ بولی ماما اَمن کو بولیں میرے ساتھ ایسا نہ کرے اٹھے اسے بولیں۔۔۔۔
پاپا آپ بولیں آپ کی تو وہ پر بات مانتا تھا۔۔۔اپنے پاپا کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔
اَمن میری بات سنو میں کیسے خوش رہوں گی اٹھو نا تم نے بولا تھا نا تم خوش رکھو گے۔۔۔۔۔ وہ روتے. ہوۓ بولی۔۔
زاہرہ روتے ہوۓ اسے سنبھال رہی تھیں۔۔