“معاذ!!لیکن وہ کیوں آیا تھا؟
“پتا نہیں ،اسے آریز چھوڑ کے گیا تھا۔”مہر کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی۔
“تو اس وقت فارس تمہاری کلاس میں تھا” امی نے پوچھا۔
اس نے روتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
“میں نے اسے پورے دو ماہ بعد آج دیکھا وہ میرے ساتھ تھا۔
میرے بالکل قریب ،میرے گھٹنے پر ہاتھ رکھے مجھے پکار رہا تھا۔اور میں ایسی بدنصیب اسے گود میں اٹھا کر پیار بھی نہیں کر سکی”۔ وہ پھر سے سسکنے لگی تھی۔
وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی،اس کی چیخیں یوں لگ رہا تھا عرش ہلا رہی ہیں۔
اتنی تڑپ۔۔۔۔۔
اتنی شدت۔۔۔۔
وہ برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔
وہ فیصلہ جو ڈیڑھ سال سے وہ نہیں کر پا رہا تھا،ان چند لمحوں میں اس سے ہو گیا۔
کیا دیوار پارکے لوگوں کو مہر پر رحم آ گیا تھا۔۔؟؟
یا اس کی مامتا پرترس کھایا گیا تھا؟؟
وہ جس طرح خاموشی سے آیا تھا اسی طرح خاموشی سے واپس کو مڑ گیا ۔اور دروازہ اسی طرح مقفل کر دیا جیسے اب سے کچھ دیر پہلے تھا۔
جبکہ دوسری طرف مہر معاذ کو پیار کرتی جاتی تھی اور بھیگی آنکھوں سے ہنستی جاتی تھی۔