Skip to content
Home » Sad story

Sad story

Zama Janaan by Tamana Noor Complete novel

  • by

“کیوں؟…کیوں کیا یہ سب؟میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟میرے معصوم بچے نے تمہارا ایسا کیا نقصان کیا ہے؟عدت کے بعد میں اپنے گھر چلی جاتی۔تم سب کو اپنی شکل بھی نہ دکھاتی۔پھر کیا دشمنی نکالی ہے تم نے؟”

وہ ہنسی۔

“ہائے ۔کیا بات پوچھ لی تم نے پیاری نند۔چلو بتا دیتی ہوں۔تمہارا تو پتا نہیں لیکن اس ہمائل خان نے ضرور میرا بہت کچھ بگاڑا تھا۔تو بس اسی کی سزا میں نے تمہیں دی ہے”

وہ چونک سی گئی۔

“حیرت ہو رہی ہے نا؟چلو سنو۔جب ہم ہمائل کے بھائی گلباز کی شادی پر گئے تھے نا…پہلی نظر میں مجھے بھا گیا تھا وہ…”

کانوں کو جیسے یقین نہ آیا کہ اس نے ابھی کیا سنا ہے اس کا منہ کھل سا گیا۔وہ کیا بکواس کر رہی تھی۔

“میں نے اس سے بات کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ تو بات بھی نہیں کرتا تھا۔ویسے نخرے تو سوٹ کرتے تھے اس پر…”

کس قسم کی گھٹیا عورت تھی جو اس کے شوہر پر فدا ہونے کے قصے اسے ہی سنا رہی تھی۔اسے شرم محسوس ہوئی کہ اس کی بھابھی جو بڑی بہن کی مانند تھی اسی کے شوہر پر نظر رکھے ہوئے تھی۔

“میں نے اسے ایک شام اس کے کمرے میں اکیلا دیکھا تو میں نے اس سے بات کی کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں اور مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔پتا ہے اس نے کیا کیا؟”

وہ مٹھیاں بھینچے اسے سنتی رہی۔

“اس نے میرے منہ پر تھپڑ مارا۔مجھے بد کردار کہا اور کہا کہ میرے جیسی عورتوں کو وہ دیکھنا بھی پسند نہ کرے”

دملہ نے شاک زدہ سے تاثرات لیے اسے دیکھا۔ہمائل نے اس سے کبھی اس بارے میں ذکر نہیں کیا تھا۔الٹا وہ تو حیران ہوتا تھا کہ مسکان کو ان دونوں سے مسئلہ کیا ہے؟

“پھر وہ میرے دل سے اتر گیا۔اسی وقت میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اگر مجھے زندگی میں کبھی موقع ملا تو اس کے یہ الفاظ اور تھپڑ اسے سود سمیت واپس لوٹاؤں گی۔شادی ہو گئی سب کچھ ٹھیک ہو گیا لیکن پھر وہ واجد کی شادی پر واپس آ گیا۔شک تو مجھے بہت پہلے سے تھا کہ وہ تم پر فدا ہے۔اسی لیے مجھے تم زہر لگتی تھی۔پھر جب تمہارا رشتہ آیا تو میں نے اپنے اس وعدے کو دہرایا۔تم سے شادی کے بعد وہ یہاں جب بھی آتا تھا ایسے ری ایکٹ کرتا تھا جیسے اسے وہ سب معلوم ہی نہ ہو۔جیسے وہ مجھے جانتا بھی نہ ہو۔مجھے موقع ہی نہیں مل رہا تھا کہ میں اسے سبق سکھا سکوں۔پھر دیکھو قسمت ،وہ مر گیا”

Dushman e nafs by Saira Ramzan Complete novel download pdf

  • by

زایان تمیں چاہیے کہ تم اس سے آج اظہارِ محبت کر دو آخر کب تک اسے انجان رکھو گے ۔کیا تم یک طرفہ محبت کرنا چاہتے ہو۔۔ فلک اور عشوانی حال کے سائیڈ ایئریا پر کب سے اسے سمجھائے جا رہی تھی کہ آج وہ اپنے جذباتوں کو محالفہ کے سامنے بیان کرے کہ وہ اس کے لیے کیا محسوس کرتا ہے۔۔

تم دونوں سمجھ نہیں رہی میں فی الحال ایسا نہیں کر سکتا!! اس نے چڑ کر کہا تھا.۔۔

کیوں نہیں کر سکتے کب بتاؤ گے اسے جب وہ کسی اور کی ہو جائے گی؟؟

نہیں ہوگی وہ کسی اور کی وہ میری ہوگی بلکہ وہ میری ہی ہے۔۔

عشوانی کی بات کاٹتے اس نے جیسے خود کو بھی یقین دہانی کروائی تھی۔

دیکھئے زایان بھائی آپ کو دیر نہیں کرنی چاہیئے ایسے معاملات میں دیری اچھی نہیں لگتی۔

فلک نے نرم لہجہ اختیار کیا۔

مجھے ڈر لگتا ہے کہ اگر اس نے انکار کر دیا تو میں اس کے انکار کے ساتھ کیسے جی پاؤں گا؟؟

زایان اب رو دینے کو تھا ۔

نہیں ایسا نہیں ہوگا آپ ایک بار ٹرائی تو کریں فلک کے کہنے پر اس نے ہاں میں گردن ہلائی مگر اس کا ڈر قائم تھا وہ پچھتانا نہیں چاہتا تھا وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ اس جنون کی حد تک عشق کرتا ہے وہ عشق میں تڑپتا ہے دن رات اس کے ساتھ خواب سجاتا ہے وہ اس کے دل و دماغ پر حاوی ہونے لگی ہے اور وہ اسے آج یہ سب بتا دینے کا ارادہ رکھتا تھا آر یا پار ۔۔ وہ اس کے انکار کو سننے کے بعد دوبارہ جی پائے گا یا نہیں وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا وہ ان کے ساتھ گارڈن ایریا میں انٹر ہوا۔ عشوانی اور فلک اس کی جانب بڑھ گئے مگر محالفہ نے ابھی تک اسے نہیں دیکھا تھا۔۔

Yakhbasta Judaiyaan novel by Rabail Saleem

  • by

“Be ready for meet up tomorrow”

“کل ملنے کے لیے تیار رہیں “

لیپ ٹاپ بند کیا ہی تھا کہ نفیسہ کمرے میں آ داخل ہوتے ہیں برہم ہوتے ہوئے بولی ۔

“شاباش بھائی کی شادی ہے اور تم ادھر بھی کام میں مگن ہو ، تھوڑی سی شرم کرلو ، کچھ دن کے لیے کام روک نہیں سکتے”

نفیسہ آپی آپ شروع ہی ہو گئی ہیں سانس تو لیں، چھوٹی سی جان ہے دم نکل جائے گا “

“شرم کرو، میں کیا کہہ رہی ہوں اور تم کیا کہہ رہے ہو”

“اوہو یہ غصہ تو مت کریں ، چھوٹی سی ناک ہے اس پر بھی غصہ بٹھایا ہوا ہے “

شامییییر! تقریبا چلاتے ہوئے بولی

اچھا اچھا سوری اب نہیں کہتا ، مگر کام تو کام ہے یہ تو کرنا ہی ہے ، مگر وعدہ میں سب فنکشنس میں بھرپور حصہ لوں گا”

“بالکل اور اب تم میرے ساتھ چل رہے ہو کیوں کہ ہم نے ڈھولکی رکھی ہے ، اور کوئی بہانہ نہیں چلے گا”

“اوکے مسز عادل ، شامیر سرنڈر کرتے ہوئے بولا”

نفیسہ اس کے انداز پر مسکرا دی اور مڑنے ہی لگی تھی کہ شامیر کی آواز پر پھر رکی

“آپی وہ کب آ رہی ہے ؟”

“کتنے بے صبرے ہو رہے ہو ، آ جائے گی وہ بھی”

“کیا کروں اتنا وقت ہو گیا ہے اسے دیکھے ہوئے “

“انتظار کرو!” یہ کہتے ہوئے نفیسہ کمرے سے نکل گئی

“وہی تو کر رہا ہوں اتنے سالوں سے” شامیر نے کہا اور چینچ کرنے کے لیے مڑ گیا، ور نہ نفیسہ اس کا لیپ ٹاپ ہی توڑ دیتی!

Gul e siyah afsana by Rabail Saleem

  • by

گل لالہ مجھے عشق ہے تم سے ہمارے بیچ پاک رشتے اور تمہارے ان سرخ گلابوں سے ۔۔۔

علی مجھے بھی عشق ہے تم سے تمہاری محبت سے اور ہر اس گل سرخ سے جس میں تمہاری محبت موجود ہے ۔

یہ آوازیں تو حسین تھیں مگر نہ جانے کیوں اس کو لگا تھا کہ اس کا دل پھٹ جائے گا۔

اس نے ان آوازوں کی سرسراہٹ کو روکنے کے لیے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے اور زور سے چلائی

خاموش ہو جاؤ خدا کا واسطہ ہے خاموش ہو جاؤ ورنہ میں مر جاؤں گی ہاتھ میں موجود سرخ محملی سکارف جو پوٹلی کی صورت بندھا تھا نیچے گر گیا تھا

مگر ہنوز وہ ان آوازوں کو روکنے کے لیے چلا رہی تھی اسے لگ رہا تھا کہ قدرت اس کا تمسخر اڑا رہی ہے یہ حسین وادیاں اور جنت نما راستے اس کی قسمت پر چپکے چپکے مسکرا رہے ہیں ۔۔

جب وہ ان آوازوں کی بازگشت سے لڑنے میں ناکام ہو گئی تو خود سے ہار کر ادھر ہی زمین پر بیٹھ گئی اور محملی سکارف کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا

کہیں سے لوٹ آؤ علی دیکھو اب ان راستوں پر سے گزرتی ہوں نہ تو مجھے دیکھ کر ہنستے ہیں یہ اکیلے

مجھ سے یہ وادی کے کنارے چیخ چیخ کر پوچھتے ہیں کہ گل اکیلے کیوں آتی ہو ہمیں تم علی کے ساتھ ہی بھاتی ہو اکیلے مت آیا کرو۔

۔آنسو بھی نہ جانے کہاں سے راستہ بنا کر نکل آئے تھے ۔۔

مگر اسے ہوش کہاں تھی ۔؟

Mohabbat ho to aesi by Rushna Aziz Complete novel download pdf

  • by

۔ وہ دوبئی کے ہسپتال میں تھی۔

اس وقت وہ آئی سی یو میں تھی۔ رنگت پیلی٫ کمزور لا غرر جسم

خشک ہونٹ٫ چہرہ ایسے لگ رہا تھا جیسے صدیوں کا تھکن زده –

پورا وجود اس کا مشینوں سے چل رہا تھا ۔ پچھلے چار سالوں سے وہ اسی

طرح تو سانسیں لے رہی تھی۔ بیس سال کوئی عمر تو نہیں ہوتی بستر

مرگ پر پڑنے کی ۔ مگر پچھلے سال یہی دسمبر کے دن تھے جب وہ

ولی کا ہاتھ تھام کر اس نئی دنیا میں آئی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ

وہ اتنی خطرناک بیماری میں مبتلا تھی ۔

یہ بیماری اسے کیوں ہوئی تھی ولی یہ با ت بہت اچھے سے جانتا تھا۔ وہ اس

کے سر ہانے بیٹھا خاموش آنسو بہا رہا تھا ۔ کتنی محبت کرتا تھا

وہ اُس سے ۔ مگر وہ تو صرف ایک ہی شخص کے لیے جیتی تھی۔

اُسی سے محبت کرتی تھی ۔ اور جب وہ شخص اُسے ہمیشہ ہمیشہ

کے لئے چھوڑ کر چلا گیا تو وہ بھی دنیا سے کٹ گئی تھی۔ وہ تو شاید

پیدا ہی صرف اُسی سے محبت کرنے کے لئیے ہوئی تھی نہ اسکی اور

کوئی خواہش تھی نہ کوئی مقصد بس صبح ہوتے ہیں اُس کا چہرہ

دیکھتی اور دیکھ کر جیتی تھی۔ سارا دن اُسکی سنگت میں رہتی ۔ محبت

کرتی محبت ہی لیتی – رات کا اختتام بھی اُس کا چہرہ دیکھ کر کرتی۔

وہ صرف سولہ سال کی تھی جب وہ شخص اُسکی زندگی سے گیا تھا ۔

اور آج صرف وہ بیس سال کی تھی اور اُس شخص کے پاس۔

***********

” فاطمہ! کیا ہوا ہے ، آپ ایسے یہاں اکیلی بیٹھ کر رو کیوں رہی ہیں؟

” ایم سوری بابا:”وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی ۔ساتھ ہی اس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔

” سوری کس لیے بیٹا بتائیے کیا ہوا ہے؟” ہوہ اس کا آنسوؤں سے بھیگا چہرہ اوپر کرتے ہوئے فکرمندی سے پوچھ رہے تھے ۔

“ایم سوری بابا ! پلیز مجھے معاف کردیجیے میں بالکل بھی اچھی نہیں ہوں ” وہ ان کے سینے سے لگ گئی تھی ۔

“اچھا پہلے یہ رونا بند کیجئے ” انہوں نے اسے الگ کر کے ہمیشہ

کی طرح آنسو صاف کر دیئے تھے۔

” اب بتائیے کیا بات ہے؟

” بابا ! آپ مجھ سے اتنی محبت کرتے ہیں ، میری ہر خواہش زبان

پہ آنے سے پہلے ہی پوری کرتے ہیں، آج پہلی بار آپ نے مجھ سے

کوئی فرمائش کی تھی اور میں نے سب خراب کر دیا ۔ پلیز!

مجھے معاف کر دیجئے” وہ پھر سے ان کے گلے لگ گئی تھی۔

“میں کچھ نہیں کر سکتی بابا ! میں آپکی محبت کا قرض کیسے اتاروں؟ “وہہ پھوٹ پھوٹ کر رو ر بی تھی ۔ محمد عبد اللہ کی شرٹ اس کے آنسوں کی وجہ سے بھیگ چکی تھی۔

“پہلی بات!ماں باپ جو اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں وہ قرض نہیں ہوتی ۔وہ اولاد کا حق ہوتا ہے ۔اور دوسری بات یہ آپ نے کیسے کہہ دی؟یہ آپ سے کس نے کہا کہ آپ کچھ نہیں کرسکتیں، میری بیٹی دنیا کی سب سے اچھی بیٹی ہے جو اپنے سے جڑے لوگوں کے لئے بہت کچھ کر سکتی ہے ، جبھی تو آج اس نے اپنوں کی فرمائش پوری کرنے کے لیئے اپنے ہاتھ جلا لیے اور اپنے درد کو ظاہر بھی نہیں ہونے دیا۔” وہ دھیرے دھیرے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرر ہے تھے۔ انہوں نے اسے خود سے الگ نہیں کیا تھا۔

مگر بابا کھانا تو پھر بھی اچھا نہیں بنا۔”

” . فاطمہ! ایک بات کہوں؟ آپکے ہاتھ میں ماشاءاللہ بہت ذائقہ ہے۔ اور کھانا بہت مزے کا تھا بس ذرا مرچیں زیادہ تھیں ۔ یہ تو ایک معمولی سی بات ہے۔ غلطی تو ہر انسان سے ہوتی ہے آپ سے بھی ہو گئی۔ انشاء اللہ ایک دن مکمل سیکھ بھ جائیں گی ۔بس اپنا دل برا نہیں کرتے ۔ وہ پوری ایمانداری سے کہہ رہے تھے۔

” بابا ! آپ لوگوں کا کھانا تو پھر بھی کچھ ٹھیک تھا مگر بھنڈی میں بہت زیادہ مرچیں تھیں ۔ اور ولی بھائی نے ایک بار بھی اپنا ہاتھ نہیں روکا ان کی آنکھوں میں پانی میں نے خود دیکھا ہے۔ اور میں جانتی ہوں وہ زیادہ سپائسی ڈشز نہیں کھا سکتے ۔ انہیں کتنی تکلیف ہو رہی تھی”۔ اب وہ خود بھی ان سے الگ ہو کر حیرت سے کہہ رہی تھی ۔

“بیٹا وہ ایسا ہی ہے۔ وہ تمہارا دل نہیں دکھانا چاہتا تھا۔”

“مگر بابا ، اُنکی تکلیف …۔”

” تم نے بھی تو میری ڈش بنانے کے لیے اپنا ہاتھ جلا لیا تھا ، کیا تمہیں تکلیف نہیں ہو رہی تھی اس وقت۔” ولی جگ میں پانی لینے کے لیے کچن میں آیا تھا اپنا ذکر فاطمہ کے منہ سے سن کر اسکے ہونٹوں پہ ایک الگ سی مسکراہٹ آئی تھی۔

اپنی بات کہتے ہوئے وہ بھی اسی طرف آ گیا تھا ۔

وہ دونوں کھڑے ہوگئے تھے۔

“ولی بھائی!،تھوڑا سا ہی تو جلا ہے “

“یہ تھوڑا سا جلا ہے ۔ زبان کی جلن تو میٹھا کھاتے ہی جھٹ سے ٹھیک ہوگئی ہے ۔مگر یہ تمہارے ہاتھ کی جلن ٫اسکا کیا۔” محمد عبد الله ولی کے جذبوں سے آگاہ تھے۔ انہیں فاطمہ کے لئے ولی کی فکر کرنا اچھا لگا تھا ۔