“ملک سے باہر جا رہے ہو؟”اس کے قریب آتے
چند انچ کا فاصلہ رکھے وہ مسکرائی تھی۔اسے اپنے اتنے قریب دیکھتے شایان کو اب سانس بھی مشکل ہی آئی تھی۔
“ہاں!لیکن تم یہاں۔۔۔!”
“ہاں میں یہاں۔۔۔!”مزید قریب ہوتے اپنی انگلی
اس کے دل کے مقام پر رکھے عنادل آج اسے
چاروں خانے چت کر گئی تھی۔
“کون سے ملک جا رہے ہو؟”دو قدم دور ہوتے ہاتھ باندھے عنادل نے لبوں پر دل فریب مسکراہٹ
بکھیرے خوشدلی سے پوچھا تھا،جبکہ آنکھوں میں ہنوز شرارت تھی۔
“لندن۔۔۔!”شایان کے چہرے کا رنگ بالکل فق تھا۔
“کب کی فلائٹ ہے؟”آنکھوں کو معصومیت سے
گھماۓ ایک اور سوال پوچھا گیا تھا۔
“آج رات کی۔۔۔!”عنادل یہاں کیوں آئی تھی اور
ان سب سوالات کا مقصد۔۔۔؟
“ہممم۔۔۔!”عنادل نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
“لیکن تم۔۔۔!”
“چٹاخ۔۔۔!”
معمول کے طابق آج شایان کو پھر اپنی متاع جان کا محبت بھرا تمانچہ پڑا تھا۔وہ بیچارا ابھی شاک کی کیفیت میں ہی تھا کہ
عنادل نے ایکدم ہی غصے سے آگے بڑھ اس کا
گریبان پکڑا تھا۔
“کیوں۔۔۔؟وہاں تمہاری بیوی رہتی ہے یا بچے۔۔۔؟جن کے پاس جانے کے لیے تم اتنے بےتاب ہو
رہے ہو۔۔۔؟”
“عنادل میں۔۔۔!”
“کیا میں۔۔۔ہاں کیا میں۔۔۔جب تمہاری
بیوی پاکستان
میں ہے تو تم لندن کیا کرنے جا رہے ہو؟بولو۔۔۔!”وہ رو دی تھی۔
“دل۔۔۔!”شایان نے اس کی آنکھ سے گرتے موتیوں
کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چنا تھا۔
“پلیز مت رو۔۔۔!”اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں
کے پیالے میں بھرتے شایان نے التجا کی تھی۔
“تمہیں کیا فرق پڑتا ہے،تم تو جا رہے ہو نا مجھے
چھوڑ کر۔۔۔!”اس کی گہری آنکھوں میں دیکھے اس نے معصومیت سے شکوہ کیا تھا۔
“تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ چلے جاو۔”
“میں نے کہا اور تم نے مان لیا۔”اسے پیچھے کی
طرف دھکیلتے وہ اب شکوے پر شکوہ کر
رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ہائے مجھے اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں ہیں۔”عنایہ
نے آکسائیڈ ہوتے ہوۓ کہا تھا۔وہ دونوں
اس وقت کافی پینے کیفٹیریا آئے تھے۔
“مجھے بھی۔۔۔!”ارمان بھی مسکرایا تھا۔
“اب اگلا نمبر ہمارا ہے۔”ٹھوڑی پر ہاتھ جمائے عنایہ نے ارمان پر محبت بھری نگاہ ڈالی تھی۔
“ہائے۔۔۔!”وہ بھی آکسائیڈ ہوا تھا۔شایان اور
عنادل کی شادی سے وہ دونوں ہی بہت
خوش تھے۔
“مجھے تو بہت حیرت ہو رہی ہے کہ میری بہن
کی شادی آپ کے دوست سے ہو رہی ہے۔”
“مجھے بھی۔۔۔!”وہ دونوں ہی ہر چیز سے بے خبر
تھے۔
“ویسے رشتہ کب بھیجوں۔۔۔؟”عنایہ کے بغیر
رہنا اب اس کے لیے بہت مشکل ہو چکا تھا۔
“ابھی ان دونوں کی شادی تو ہونے دیں،اور ویسے
بھی میری کچھ شرائط ہیں۔”
“کیسی شرائط۔۔۔؟”اس کا ماتھا ٹھنکا تھا۔
“میں آپ سے اسی شرط پر شادی کروں گی
جب آپ مجھے ساری اسائمنٹس بنا کر دیں
گے اور مجھے ہمیشہ ہر ٹیسٹ اور پیپر میں فل
مارکس دیں گے۔”
“What…?”
وہ تقریبا چیخ اٹھا تھا۔
“آپ اپنے پروفیسر سے اسائمنٹس بنوائیں گئی؟”وہ جیسے یقین کرنا چاہتا تھا۔
“اگر ان محترم پروفیسر صاحب کو مجھ سے
شادی کرنی ہے تو یہ تو کرنا ہی پڑے گا۔”معصومیت سے آنکھیں مٹکاۓ وہ ارمان کو بہت بڑا جھٹکا دے گئی تھی۔
“یہ زیادتی ہے۔”ارمان نے دبا دبا سا احتجاج کیا تھا۔
“جو بھی ہے۔۔۔!”عنایہ نے لاپروائی سے شانے اچکائے تھے جس پر ارمان نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تم نے میرے لیے کوئی ویڈنگ گفٹ تو نہیں لیا نا۔۔۔؟” شہادت کی انگلی کو اپنے دانتوں تلے
دبائے وہ اضطراب سے گویا ہوئی تھی۔
“اگر تم نے ابھی تک نہیں لیا نا تو مت لینا۔۔۔!”
“کیوں۔۔۔؟”ماتھے پر شکنیں ابھری تھیں۔
“گفٹ مجھے اپنی مرضی کا چاہئے۔”وہ ایکدم
ہی ریلیکس ہوا تھا۔
“وہ تو تم لے لینا مگر ویڈنگ گفٹ تو
میں اپنی مرضی سے دوں گا۔”
“نہیں!میرا مطلب ہے کہ میں نے
ہمیشہ سے یہ
سوچا ہوا تھا کہ جب بھی میری شادی ہو گی
تو میں شادی کی پہلی رات اپنے شوہر سے یہی
تحفہ مانگوں گی۔”وہ اب بھی مضطرب تھی۔
“اچھا!تو کیا چاہیے میری جان کو۔۔۔؟”
“جو مانگوں گی دو گے؟”ایک لمحے میں شایان کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔وہ کہنا چاہتا تھا کہ
آخر میرے پاس ہے ہی کیا؟
“ہممم۔۔۔۔!”مگر وہ بس اتنا ہی کہہ سکا تھا۔
“کیا تم کل رات شادی کے تحفے کے طور پر مجھے
سورت محمد سنا سکتے ہو،میرا مطلب ہے میری ہمیشہ
سے یہی خواہش تھی کہ میرا شوہر جو بھی
ہو میں اس سے یہی فرمائش کروں گی کہ وہ
مجھے ایک سورت حفظ کر کے سنائے۔میں جانتی
ہو یہ بہت مشکل ہے مجھے تمہیں پہلے بتانا
چاہیے تھا مگر تم فکر مت کرو تم جتنی آیات
باآسانی یاد کر سکو کر لینا نہیں تو دیکھ کر پڑھ دینا۔”عنادل کی اس لمبی تمہید پر وہ مسکرا
دیا تھا۔وہ خاص تھی بہت خاص تو اس کی
فرمائش کیسے عام ہو سکتی تھی؟