” تمہیں ایک بات کتنی بار سمجھانی پڑے گی”
” کیا ہوا “
اس کے اچانک گویا ہونے پر وہ ڈر گئی اور پھر ہلکلاتے لہجے میں اس کی بات کی وجہ پوچھی
” کیا مطلب کیا ہوا تمہیں میں کتنی دفعہ سمجھا چکا ہوں کہ مجھے چھوٹا کان کہہ کے مت بلایا کرو اس کی اجازت تمہیں نہیں ہے میری ایک دفعہ کہی گئی بات کیوں سمجھ نہیں اتی “
وہ اس کی ناسمجھی پر غصے کی حالت میں اسے باور کروانے لگا
” وہ وہ داجی کے کہنے پر غلطی سے زبان سے ادا ہو گیا”
اسے کچھ دیر پہلے والی بات یاد اگئی تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ باسط خان سے بہت ڈرتی تھی ایک وہی تو تھا جس سے وہ ڈرتی تھی
“ائندہ سے یہ لفظ تو غلطی سے بھی تمہاری زبان سے ادا نہ ہوں تمہیں مجھے چھوٹے خان کہنے کی اجازت نہیں ہے”
وہ صرف وارننگ دیتے انداز میں کہتے پھر سے سامنے کی طرف متوجہ ہوا
“ویسے ایک بات پوچھوں “
وہ ڈرتے ڈرتے گویا بھی اس نے محض ہنکارہ بھرا نظریں ہنود سامنے تھیں
” اپ کو میرے چھوٹے کا کہنے سے مسئلہ کیا ہے “
درحقیقت وہ بھی تنگ ا گئی تھی کہ اسے ہمیشہ سے اسی بات پہ ڈانٹا تھا کہ عریج اسے غلطی سے بھی چھوٹا خان نہ بلائے اج بھی بڑی ہمت کر کے یہ سوال کیا تھا
” کیونکہ یہ نام میرے لیے بہت قیمتی ہے چونکہ یہ مجھے دادی کی جانب سے دیا گیا ہے اور مجھے یہ ہرگز گوارا نہیں کہ میری قیمتی چیزیں تم استعمال کرو اور تم مجھے میرے اس قیمتی نام سے مخاطب نہیں کر سکتی”
٭٭٭٭
تیرے بن اب نہ لیں گے ایک بھی دم
تجھے کتنا چاہنے لگے ہم
تیرے ساتھ ہو جائیں گے ختم
تجھے کتنا چاہنے لگے ہم
اس جگہ آ گئے چاہتیں اب میری
چھین لوں گا تمہیں ساری دنیا سے ہی
تیرے عشق پہ ہاں حق میرا ہی تو ہے
اففف اس کے یہ الفاظ ایک بار پھر عریج خان کا دل دھڑکا گئے تھے وہ ہمیشہ اپنی خانم کو ایک نئے طریقے سے اپنا آسیر کر لیتا تھا۔
کہہ دیا ہے یہ میں نے میرے رب سے بھی
جس راستے تو نہ ملے
اس پہ نہ ہو میرے قدم
تیرے بن اب نہ لیں گے ایک بھی دم
تجھے کتنا چاہنے لگے ہم
تیرے ساتھ ہو جائیں گے ختم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭