Skip to content
Home » Rude Hero Base Novels

Rude Hero Base Novels

Mahiya ve by Sunaina Khan Complete

  • by

لہرانے لگے۔۔۔۔۔۔
مدھر ہنسی اور کھنکتے قہقہے ماحول کو اور بھی حسین بنا گئے تھے۔۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ منت کتنی پیاری لگ رہی ہو،، صفوان بھائی تو دیکھتے ہی فلیٹ ہو جائیں گے ۔
پیام گرین فراک اور یلو غرارہ پہنے روم میں داخل ہوتی ،،، گرین کرتی اور یلو گھیر دار لہنگے میں پھولوں کے زیور اور لائٹ میک اپ سے سجی سنوری منت کو دیکھ کر بے ساختہ بولی۔۔۔۔۔۔
منت تو جھینپ گئی۔۔۔۔۔۔۔
بھابھی بیگم کم تو آپ بھی نہیں لگ رہیں۔ تبھی تو ہمارے کھڑوس بھائی بہانے بہانے سے آپ کے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں۔ پیچھے سے آتی عنایت نے پیام کی ٹانگ کھینچائی کی ۔
ارے واہ ہرنی صاحبہ آپ کے بھی پر نکل آئے ہیں ورنہ جب میں آئی تھی تو آپ تو بڑی چھوئی موئی سی تھیں ۔ ایسا بھی کیا جادو کر دیا المیر سلطان نے کہ ہماری عنایت اتنی بدل گئی ہے ۔

Youn mil gay raaste by Humail Kazmi Complete novel

  • by

ہم جب اللہ کی نعمتوں کا شمار کرتے ہیں تو سب سے بڑی نعمت وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ہونے ہمارے لیے فرحت و انبساط کا باعث ہوتا ہے ۔ان کے ساتھ گزرے لمحے زندگی کے صفوں پر ہمیشہ کے لیے سنہری لفظوں میں درج ہوتے ہیں ۔ان کے چہرے کی مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک جینے کی وجہ ہوتی ہے اور ایسے ہی لوگ آپ کو زندگی کے اندھیروں سے روشنی کے نور کی طرف لاتے ہیں اور یہ وہ نعمت ہے جس کا شکر محض لفظوں سے ادا کرنا ممکن نہیں۔

Nikkah ki taqat by Hoorain Sikander Complete novel

  • by

” تمہیں ایک بات کتنی بار سمجھانی پڑے گی”

” کیا ہوا “

اس کے اچانک گویا ہونے پر وہ ڈر گئی اور پھر ہلکلاتے لہجے میں اس کی بات کی وجہ پوچھی

” کیا مطلب کیا ہوا تمہیں میں کتنی دفعہ سمجھا چکا ہوں کہ مجھے چھوٹا کان کہہ کے مت بلایا کرو اس کی اجازت تمہیں نہیں ہے میری ایک دفعہ کہی گئی بات کیوں سمجھ نہیں اتی “

وہ اس کی ناسمجھی پر غصے کی حالت میں اسے باور کروانے لگا

” وہ وہ داجی کے کہنے پر غلطی سے زبان سے ادا ہو گیا”

اسے کچھ دیر پہلے والی بات یاد اگئی تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ باسط خان سے بہت ڈرتی تھی ایک وہی تو تھا جس سے وہ ڈرتی تھی

“ائندہ سے یہ لفظ تو غلطی سے بھی تمہاری زبان سے ادا نہ ہوں تمہیں مجھے چھوٹے خان کہنے کی اجازت نہیں ہے”

وہ صرف وارننگ دیتے انداز میں کہتے پھر سے سامنے کی طرف متوجہ ہوا

“ویسے ایک بات پوچھوں “

وہ ڈرتے ڈرتے گویا بھی اس نے محض ہنکارہ بھرا نظریں ہنود سامنے تھیں

” اپ کو میرے چھوٹے کا کہنے سے مسئلہ کیا ہے “

درحقیقت وہ بھی تنگ ا گئی تھی کہ اسے ہمیشہ سے اسی بات پہ ڈانٹا تھا کہ عریج اسے غلطی سے بھی چھوٹا خان نہ بلائے اج بھی بڑی ہمت کر کے یہ سوال کیا تھا

” کیونکہ یہ نام میرے لیے بہت قیمتی ہے چونکہ یہ مجھے دادی کی جانب سے دیا گیا ہے اور مجھے یہ ہرگز گوارا نہیں کہ میری قیمتی چیزیں تم استعمال کرو اور تم مجھے میرے اس قیمتی نام سے مخاطب نہیں کر سکتی”

٭٭٭٭

تیرے بن اب نہ لیں گے ایک بھی دم

تجھے کتنا چاہنے لگے ہم

تیرے ساتھ ہو جائیں گے ختم

تجھے کتنا چاہنے لگے ہم

اس جگہ آ گئے چاہتیں اب میری

چھین لوں گا تمہیں ساری دنیا سے ہی

تیرے عشق پہ ہاں حق میرا ہی تو ہے

اففف اس کے یہ الفاظ ایک بار پھر عریج خان کا دل دھڑکا گئے تھے وہ ہمیشہ اپنی خانم کو ایک نئے طریقے سے اپنا آسیر کر لیتا تھا۔

کہہ دیا ہے یہ میں نے میرے رب سے بھی

جس راستے تو نہ ملے

اس پہ نہ ہو میرے قدم

تیرے بن اب نہ لیں گے ایک بھی دم

تجھے کتنا چاہنے لگے ہم

تیرے ساتھ ہو جائیں گے ختم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Meri zindagi by Amna Arain Complete novel

  • by

احمد ہی نہیں ہو سکتا یہ کیسے کہہ سکتے ہیں میرا بچہ کوما میں چلا گیا ہے یہ کیا کہہ رہے ہیں اپ سن رہے ہیں نا ایسے کیسے ہو سکتا ہے اسیہ بیگم تب سے ہزیانی چلائی جا رہی تھی

احمد شاہ خود پریشان کھڑے ہوئے تھے ان کو خود کچھ سمجھ نہیں ا رہا تھا کہ ان کا جوان جہان بیٹا اس طرح ہاسپٹل میں بستر سے لگ کر پڑا ہوا ہے انہوں نے تو ابھی ارحم اور ارم کو بھی سنبھالنا تھا وہ کیسے سب کا سامنا کریں گے وہ کیسے اپنے بچوں کو بتائیں گے اگر تو عزلان کچھ ہو گیا وہ اگے سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ صرف اور صرف اپنے رب سے دعا کر سکتے تھے

ان کا شدت سے دل چاہ رہا تھا انسو بہانے کا لیکن وہ بظاہر اپنے اپ کو مضبوط بتا رہے تھے لیکن ان کا رب جانتا تھا کہ وہ اندر سے کس قدر ٹوٹ چکے ہیں

اخر کون باپ چاہے گا اپنے بیٹے کو اس حالت میں دیکھنا

ان کا بیٹا اج کتنا خوش تھا اپنے عشق کو پا کر وہ اپنی بارات لے جانے کے لیے کس قدر خوش تھا وہ وہی جانتے تھے انہوں نے اس کی انکھوں میں خوشی دیکھی تھی وہ اج سے پہلے کبھی اتنا خوش نہیں ہوا تھا جتنا اج ہو رہا تھا

یا اللہ پتہ نہیں میرے گھر کو کس کی نظر لگ گئی ہے احمد میں اپ کو بتا رہی ہوں اس م** لڑکی کی وجہ سے ہوا ہے وہ ابھی ہمارے گھر میں ائی نہیں کہ میرے بیٹے کو اس حال میں پہنچا دیا ہے اللہ غرق کرے اس کو میری بد دعا ہے اس سے وہ کبھی خوش نہ رہ سکے

Black monster by Zobia Ahmed Complete novel

  • by

دور ہٹو میرے شوہر سے خبر دار جو کسی نے بھی میرے ہاشم کو اب ہاتھ لگایا… مصباح کسی شیرنی کی طرح چیخی تھی..

روبو نے کنگ کو رسی سے باندھا تھا اسکے پیٹ پر گولی ماری تھی روبو نے ..

رر روز تت تم جج جاؤ یہاں سے … بلیک مانسٹر نے خون میں لت پتے ہوتے ہاتھوں سے اسے جانے کا اشارہ کیا تھا…

چپ کرو تم ایک لفظ بھی اور کہا تو میں تمہارا اپنے ہاتھوں سے قتل کرونگی ویسے تو بڑے بلیک مانسٹر بن کر پھرتے ہو یہاں کیا ہوا اس …کتے سے مار کھا رہے تھے… مصباح ہاشم پر چڑ دوڑی تھی…

ہاشم تو بس اسکے تیور دیکھ رہا تھا…

اہہہ… مصباح کے بال ہنری نے پکڑے تھے…

تیری ہمت کیسی ہوئ مجھے دھکا دینے کی.. تیری بھی تیرے ہاشم جیسی ہالت کرونگا…

ہنری میم کو چھوڑ دو تمہاری لڑای ہم سے ہے نا تو ہم سے بات کرو انکو جانے دو… روبو نے گن اسکی جانب کی تھی…

مصباح نے موقع دیکھ کر اپنی ایک ٹانگ اسکے دوسری ٹانگ سے الجھا کر اسے منہ کے بل گرا تھا.. مصباح جلدی سے گن لی تھی…

روبو اپنے صاحب کو گاڑی میں بیٹھاو اور hospital پہنچاؤ.. مصباح جس انداز حکم دیا روبو کو لگا اب اصلی بلیک مانسٹر تو مصباح ہے…

میں نے کہا تھا نا میرے شوہر کو ہاتھ بھی مت لگانا ورنہ موت میرے ہاتھوں سے ہوگی تمہاری…میرے ہاشم کا تم ایک ایک خون کا حصاب دوگے… مصباح کے ہاتھ میں گن تھی جو سیدھا اسنے اسکے دل کا نشانہ لیا ہوا تھا…