Mehmal by Rabia Aslam Complete Novel
Mehmal by Rabia Aslam Complete Novel Mehmal by Rabia Aslam Complete Novel Available to read online and Download PDF . This is digest story based… Read More »Mehmal by Rabia Aslam Complete Novel
Mehmal by Rabia Aslam Complete Novel Mehmal by Rabia Aslam Complete Novel Available to read online and Download PDF . This is digest story based… Read More »Mehmal by Rabia Aslam Complete Novel
زینی کو کمرے میں لے کر جاؤ۔۔۔۔ وہ گھر میں داخل ہوۓ تو وہ ملازمہ سے بولا جو صرف زینب کا خیال رکھنے کے لیے ہی رکھی گئی تھی۔
خود اس نے قدم لاؤنج کی طرف بڑھاۓ۔ وہاں پر اس نے عجیب و غریب منظر دیکھا۔ وہاں پر مہمان موجود تھے اور ماحول کافی گرم تھا۔ اندازہ نہیں لگایا جا رہا تھا کہ وہاں پر ہوا کیا تھا۔
اس نے نینا کی طرف دیکھا وہ پرسکون سی بیٹھی تھی۔ اور یہ لوگ تو شاید رشتے والے تھے۔ یقیناً اس نے نیا کوئی ہنگامہ کیا تھا اپنا رشتہ بھگانے کے لیے۔ بڑی ہی کوئی بدتمیز لڑکی تھی نا ماں کا لحاظ تھا اور نا ہی گھر میں آنے والے مہمانوں کا۔
چلو پھر اب اسے شادی نہیں کرنی تو گھر والوں کو ہی ہار مان لینی چاہیے اور اسے تھوڑا وقت دینا چاہیے۔ خیر وہ کیا ہی کہہ سکتا تھا سب ہی ایک جیسے تھے۔ اس نے کندھے جھٹکے اور دروازے سے ہی واپس مڑ گیا۔
ہاۓ اللہ جی ایسا بھی میں نے کیا کر دیا جو اس ریسٹورنٹ کے سارے ویٹرز اور باہر کھڑے اتنے سارے گارڈز میرے پیچھے ہی پڑ گئے۔ وہ پھولتے سانس کے ساتھ ایک جگہ رکی اور پیچھے دیکھا۔ ابھی تو اسے کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ ہاتھ میں نیلے رنگ کی فائل پکڑے سادہ سے جوڑے میں ملبوس سر پر سٹالر سے حجاب بناۓ ہوۓ تھی۔
اس نے سامنے دیکھا۔ اسے دہی بھلوں کا ٹھیلا نظر آیا۔ جلدی سے آگے بڑھتی وہ اس ٹھیلے سے کمر ٹکا کر بیٹھ گئی اور اپنی پھولتی سانسوں کی روانی کو درست کرنے لگی۔
اچانک ہی کوئی تیزی سے بھاگتے ہوۓ وہاں سے گزرا تھا۔ اس نے جلدی سے اپنے دوپٹے سے منہ ڈھانپا۔ ایسے ہی کتنے لوگ وہاں سے گزرے تھے۔ اور صد شکر کے ان میں سے کسی نے اسکو نہیں دیکھا تھا۔
اس نے وہ فائل اسی ٹھیلے پر رکھی اور کھڑی ہوئی۔ پتہ نہیں کیوں بھگا رہے ہیں مجھے۔۔۔؟ وہ اداسی سے بولی۔ اس ٹھیلے والے نے اسے دیکھا اور مؤدب انداز میں بولا۔ باجی خیریت ہے۔۔؟
کہاں بھیا۔۔۔؟ آج کل کے لوگ خیریت سے رہنے کہاں دیتے ہیں۔۔۔؟ وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔ ایک پلیٹ دہی بھلے۔۔۔ ساتھ ہی دہی بھلوں کا آڈر دیتے ادھر اُدھر دیکھنے لگی کہ کہیں اب بھی کوئی اس کے پیچھے نا ہو۔
آپ کو پتہ ہے پورے پچیس منٹ سے بھاگ رہی ہوں میں۔۔۔ اور تو اور میں نے تو صبح ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ اب ایسا لگ رہا ہے جیسے ابھی زمین بوس ہو جاؤں گی۔ اور پتہ نہیں ان لوگوں کو کیا مسئلہ ہو گیا میرے ساتھ۔ مجھے چور بول رہے ہیں۔ اس دکاندار نے پلیٹ اسے پکڑائی تو وہ دہی بھلے کھانے لگی۔
ارررےےے۔۔۔۔ وہ دکاندار بولا۔
ایسے لوگوں کا نا جہنم میں الگ ہی بحریہ ٹاؤن ہو گا۔۔ مرچی زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ سوں سوں کرتے بول رہی تھی اور دہی بھلے بھی کھا رہی تھی۔
بالکل سہی۔۔۔ وہ اس کی تائید میں بولا۔
اب آپ ہی بتائیں یہ اتنی کیوٹ سی پیاری سی بھولی بھالی سی لڑکی کہیں سے چور لگتی ہے۔۔۔
ہاں۔۔۔ وہ پلیٹیں دھوتا ہوا بے دھیانی میں بولا۔
ہاں۔۔۔؟ اس لڑکی کا منہ میں چمچ لے جاتا ہوا ہاتھ رکا۔ اور وہ خونخوار نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے تیکھے لہجے میں بولی۔
وہ میرا مطلب ہے ہاں۔۔۔ ناں۔۔ ہاں۔۔۔ مگر۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ گڑبڑا گیا۔
وہ رہی۔۔۔۔ پکڑو اسے۔۔۔۔ اس کے کانوں میں مردانہ آواز گونجی اور ہاتھ میں پکڑا چمچ پلیٹ میں گرا۔
مر گئی۔۔۔۔ بھاگ ہیر۔۔۔۔ بھاگ لے۔۔۔۔ پلیٹ اس آدمی کو پکڑاتے وہ بغیر فائل لیے ہی وہاں سے بھاگی۔
ارے مگر میرے پیسے۔۔۔۔؟ اس آدمی نے پیچھے سے آواز لگائی۔
بعد میں دے دوں گی۔۔۔۔ وہ چلائی تھی اور رفتار میں سستی نا لائی۔
ہے لڑکی رکو۔۔۔۔ پکڑو اسے۔۔۔۔ اسے اپنے پیچھے سے بہت سی آوازیں سنائی دے رہی تھیں مگر وہ رک نہیں سکتی تھی۔
اتنی تیز بھاگتے ہوۓ جب اچانک ہی وہ رکی تو بمشکل گرنے سے سنبھلی تھی۔ اس نے سامنے دیکھا جہاں سے اسے اپنی طرف دو لوگ آتے ہوۓ دکھائی دیے۔
پھر جلدی سے وہ پلٹی تاکہ بھاگ سکے۔ مگر اس کے پیچھے بھی دو لوگ تھے۔ اس نے رونی صورت بنائی۔ اللہ جی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے یہ تو سنا تھا مگر یہ جو بغیر کیے بھرنا پڑ رہا ہے نا یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے رونی شکل بناتے دہائی دینے لگی۔
دیکھو میرے پاس نہیں آنا تم لوگ ورنہ۔۔۔۔ اس نے دونوں جانب گھوم گھوم کر دونوں اطراف میں کھڑے لوگوں کو انگلی اٹھا کر تنبیہ کی۔
ورنہ۔۔۔۔ سامنے سے ایک آدمی غصے سے بولا تھا۔ اس کا غصہ بنتا بھی تھا کب سے یہ لڑکی انہیں بھگا رہی تھی۔ مگر یہ سمجھنا مشکل ہو رہا تھا کہ کون کس کو بھگا رہا تھا۔
ورنہ میرے فارس کو اگر پتہ چلا نا کہ تم ایک معصوم سی بن باپ کی بچی کو اتنا پریشان کر رہے ہو تو بنا آواز کے بندہ مارنا اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ وہ مصنوعی ناراضگی سے بولی۔
ابے یہ کون ہے۔۔۔؟ اس آدمی نے الجھی نظروں سے دوسرے آدمی کو دیکھا۔
پتہ نہیں۔۔۔۔ شاید شوہر ہو اسکا۔۔۔۔ وہ اپنی طرف سے اندازہ لگانے لگا۔
تو بی بی۔۔۔۔ وہ آدمی پھر سے بولا جب ہیر نے اسکی بات کاٹی۔
شوہر۔۔۔۔؟ وہ بےیقینی کے عالم میں چلائی۔
تو بھائی ہو گا۔۔۔۔؟ تیسرے آدمی نے اندازہ لگایا۔
بھائی۔۔۔۔؟ ہیر نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا اور پہاڑ کی طرح برس کر بولی۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ کہنے کی۔۔۔؟ ہیر کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کا منہ نوچ لے۔
پھر بواۓ فرینڈ ہو گا۔۔۔؟ دوسرے آدمی نے کہا۔
بواۓ فرینڈ۔۔۔؟ وہ پھر سے بےیقینی کے عالم میں چلائی۔ اب کے اس کا غصہ آپے سے باہر ہو رہا ہے۔
میں نے تم لوگوں کی ایسی درگت بنانی ہے کہ ساری زندگی یاد رکھو گے۔ وہ طیش و اشتعال سے بولی۔
اچھی لڑکیاں بواۓ فرینڈ نہیں بناتی۔ تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی اسے میرا بواۓ فرینڈ بنانے کی۔۔۔۔؟
پھر بی بی تم خود ہی بتا دو کے کون ہے یہ؟ پہلا آدمی بےبس سا بولا تھا۔
چھوڑو اسے ہم جو کام کرنے آۓ ہیں وہ کرو۔۔۔ چوتھا آدمی بولا۔
وہ فائل کہاں ہے۔۔۔۔؟ اس آدمی نے غصے سے پوچھا تو جھماکے سے کچھ یاد آیا تھا۔ ہاۓ میں مر گئی۔ وہ فائل۔۔۔ اس کی آنکھوں میں مایوسی اتری۔ وہ فائل تو وہ اسی ٹھیلے پر چھوڑ آئی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زمین پر بیٹھ کر دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دے۔
اے لڑکی۔۔۔۔ ان میں سے ایک آدمی بولا۔
مجھ سے تمیز سے پیش آؤ ورنہ اگر میرے جہان کو پتہ لگ گیا نا کہ تم مجھے کب سے بھگا رہے ہو تو استنبول کے کتوں کو کھانے کے لیے تمہاری لاش بھی نہیں ملے گی۔ وہ انگلی اٹھا کر دھمکی آمیز لہجے میں بولی۔
لیکن ہم تو پاکستان میں ہیں۔۔۔۔ دوسرا آدمی الجھ کر بولا۔
پھر تو تم بھی اس کے ساتھ مخلص نہیں لگتے کیونکہ ایک غیرت مند مرد کو تو یہ بات گوارا نہیں کہ اسکی بیوی کے کسی دوسرے مرد کے ساتھ تعلقات ہوں
رایان نے بھی قدرے سنبھل کر اسے جواب دیا۔۔۔ کیا کیا گمان کر بیٹھا تھا کہ اتنی جلدی جیت گیا وہ لیکن یہاں اس کا کھیل اس پر ہی الٹ چکا تھا۔۔۔۔ مگر وہ ہار نہیں مان سکتا تھا وہ ابھی بھی کوشش کرے گا
کچھ لوگ اپنی زندگی اچھے سے گزارنے کے بجائے دوسروں کی زندگی برباد کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔۔۔ اور پھر وہ اپنی اس زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت کی زندگی بھی تباہ کر لیتے ہیں
اور رایان ان کچھ لوگوں میں سے ہی ایک تھا
تو تمہیں کیا لگتا ہے مسٹر رایان شاہ میری غیرت اس میں ہے کہ میں گھر جا کر اپنی بیوی کی کردار کشی کروں؟؟۔۔۔۔۔۔۔ دوسروں کے سامنے اسے بدکردار کہوں اور بےعزت کروں؟؟۔۔۔۔۔۔ اس کی تزلیل کروں؟۔۔۔۔۔ کیا اس کو مردوں کی غیرت کہتے ہیں ؟
ارحم دوبارہ سے آگے کو ہو کر بیٹھا۔۔۔۔ چہرے پر اب سنجیدگی برقرار تھی۔۔۔ آخر میں وہ تمسخرانہ ہنسا
ہاں شاید اگر میں اس کے کردار کو داغ دار کہتے طلاق کے کاغذات اس کے منہ پر مار دوں تو میں بہت غیرت مند مرد کہلاؤں گا۔۔۔۔ ارحم استہزایہ ہنسا
دنیا کے سامنے اپنی بیوی کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے بجاۓ میں اسے رسوا کر دوں تو میں غیرت مند مرد کہلاؤں گا۔۔۔ وہ ٹھہرا اور رایان کی آنکھوں میں جھانکا
ایسا ہی ہے نا۔۔۔۔ اس نے رایان کی آنکھوں میں دیکھتے تصدیق چاہی تھی لیکن وہ تو جیسے حیرت کے سمندروں میں ڈوب چکا تھا۔۔۔ وہ شل سا بیٹھا اسے سن رہا تھا
اگر ایسا کرنے سے میں غیرت مند مرد کہلاؤں گا تو معزرت کے ساتھ میں بے غیرت ہی سہی ہوں۔۔۔۔
مجھے غیرت مند مرد بن کر اپنی بیوی کو اسکی خود کی نظروں میں نہیں گرانا۔۔۔
زری ایک لڑکی تمہارا نام پوچھ رہی تھی میں ایج سے لے کر گھر کے ایڈریس تک سب بتا آئی۔ عشاء تو ایسے بتا رہی تھی جیسے کوئی کارنامہ کر دیا ہو
بس فون نمبر رہ گیا. عشاء اداس ہوئی
کیا مطلب کس کو بتا آئی ہو؟ زریام کے تو ہوش اڑے تھے
دعا دو گے مجھے فری میں ایک گلر فرینڈ مل گئی
شکریہ ادا مت کرنا۔ ایسے چھوٹے موٹے کام میں کرتی رہتی ہوں۔ ویسے مبارک ہو تمہیں اب تم سنگل نہیں رہے
عشاء تو مسکرا رہی تھی لیکن زویا کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا
یار عشاء یہ کوئی طریقہ۔۔۔۔۔
اوہ کملی جی ناں پوچھدی۔۔۔۔ کیندی ہاں یاں کہ نا پوچھدی
او لبھدی بہانے پھردی۔۔۔۔۔۔ کدے کافی کدی چاہ پوچھدی
زریام کچھ کہنے ہی لگا تھا جب عشاء گنگنانے لگی
میں پھیرا اگنور ماردا کیوں کہ ٹوٹیا ہے دل یار دا
یار ہی نے جیرے سانبھی جاندے نے عشاء نے خود کو مہان محسوس کرتے بائیں پھیلائی
زریام حیران و پریشاں بیٹھا ایک نئی مووی کا ٹریلر دیکھ رہا تھا
بس کر دو عشاء ہر بات مزاق نہیں ہوتی۔ زویا غصے سے کہتی اٹھ کر چلی گئی
اسے کیا ہوا؟ زریام نے اسے غصے میں جاتے ہوۓ دیکھ پوچھا
میں دیکھ کر آتی ہوں؟ عشاء بھی اس کے پیچھے جانے کے لیے کھڑی ہوئی لیکن دو قدم چلنے کے بعد بھاگ کر واپس زریام کے پاس آئی
یہ گانا پرفیکٹ میچ تھا لیکن ایک مسئلہ ہے یار تمہارا دل ٹوٹا ہوا نہیں ہے تو پھر ایسا کرو پہلے اپنا دل تڑواؤ اور پھر ہم یہی سے شروع کریں گے ۔ عشاء اسے آنکھ مارتی زویا کے پیچھے جانے لگی جبکہ زریام نفی میں سر ہلا کر رہ گیا
زویا منہ بناۓ بینچ پر بیٹھی تھی جب عشاء اس کے ساتھ آکر بیٹھی
ایسے کیا دیکھ رہی ہو تمہارا ہی ہے۔ عشاء نے اس کے کندھے سے کندھا مس کیا
ک۔کیا مطلب
زویا جو زریام کو ہی دیکھ رہی تھی جس کے پاس کچھ لڑکیاں کھڑی تھیں اور وہ بھی ایسے بات کر رہا تھا جیسے اس کے ماموں کی بیٹیاں ہوں اپنی چوری پکڑے جانے پر ہڑبڑا کر بولی
تمہیں کیا لگتا ہے میں نہیں جانتی اس بارے میں۔ بچپن کی دوستی ہے میری تم سے چہرہ بھی پڑھ لیتی ہوں
اور وہ تاثرات تو واضح جھلک رہے ہوتے ہیں جو زریام کو کسی لڑکی کے ساتھ دیکھ کر تمہارے چہرے پر آتے ہیں۔ عشاء نے اس کے گرد باہیں پھیلاتے اس کی تھوڑی پر انگلی رکھتے اسکا چہرہ اپنی طرف موڑتے کہا
عشاء میں بہت کوشش کرتی ہوں اس سب سے نکلنے کی لیکن یہ میرے بس میں نہیں رہا یار۔ میں کیوں اس کے بارے میں سوچتی ہوں۔ اس کا کسی سے بات کرنا مجھے کیوں اچھا نہیں لگتا مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا ہے یار میں کیا کروں؟ مجھے ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے۔ جب بھی وہ کسی لڑکی سے ہنس کر بات کرتا ہے تو دل میں خوف پیدا ہو جاتا ہے
زویا اپنے جذبات بتانے سے بھی ڈرتی تھی اور زریام کے کسی اور کے بارے میں جذبات جاننے سے بھی ڈرتی تھی
اگر وہ کسی سے۔۔۔۔۔۔
تمہیں لگتا ہے ایسا کچھ ہو گا ہر لڑکی کو تو وہ ایسے ٹریٹ کرتا ہے جیسے اس کی گرل فرینڈ ہو لیکن یار اسکا وہ ڈائیلوگ ساری لڑکیاں میری بہنیں ہیں