Sahab novel by Areeba Khalid
ہائے ائی ایم اجر یور کزن اج اچانک یاد انے پر اس نے پھوپھو کے دیے ہوئے نمبر پر میسج کیا چند منٹ بعد ہی جوابی ٹیکس اگیا ہائے ائی ایم علیزے مجھے بہت شوق تھا اپ سے بات کرنے کا۔ امی نے بتایا تھا مجھے کہ وہ اپ کو میرا نمبر دے کے نہیں ہے بس اسی دن سے میں اس انتظار میں ہوں کہ کب اپ کا میسج ائے اجر کیا اپ مجھے اپنی تصویر بھیج سکتے ہیں دیکھیں نا کتنی عجیب بات ہے کہ ہم دونوں کزنز ہیں اور ہم نے ابھی تک ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں ہے اگر اپ کو کوئی ایشو نہیں ہے تو پلیز اپ مجھے اپنی پک بھیج دیں۔ اور بالاخر اج اپ نے مجھے میسج کر ہی لیا۔جی وہ بس میرے ذہن سے نکل گیا تھا اس کا دل کھٹک رہا تھا اور دماغ کسی خطرے کا پیغام دے رہا یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کسی بپھرتے سمندر کا بند کھول دیا گیا ہو اور ایک طوفان اس کی جانب آ رہا ہو۔آپی آپ رات کو اتنی دیر تک دیر کس سے باتیں کر رہی تھیں۔ وہ میں علیزے بات کر رہی تھی۔ اپ بھی اپ کو پتہ ہے نا کہ اگر بابا کو معلوم ہوا تو وہ کتنا غصہ کریں گے اچھا اچھا ٹھیک ہے میرا سر پہلے ہی درد سے پھٹ رہا ہے مزید میرا دماغ خراب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اجر کیسی ہیں اپ۔الیزے پلیز تم نا یہ مجھے اپ مت کہا کرو اب تو ہم دوست ہیں اور دوستی میں تکلف سے نہیں محبت سے بنتی ہے۔وہ اس کے اپ کہنے سے زچ ہو کر بولی۔
مگر اجر احترام بھی تو ضروری ہوتا ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے علیزے مگر احترام چاہنے والے اور چاہت کے درمیان ایک دیوار ہوتا ہے اور دوستی میں اگر احترام ا جائے تو پھر وہ دوست نہیں مروت بن جاتی ہے۔ویسے اجر ایک بات کہوں اگر تم مائنڈ نہ کرو تم نہ مجھے بہت اچھی لگتی ہو اگر میں لڑکا ہوتی تو تم سے شادی کرتی۔ اجر! سجاد صاحب کے آتے ہی اس نے جھٹ سے موبائل بند کر کے تکیے کے نیچے چھپا دیا۔ ج ،ج، جی بابا وہ اپنی گھبراہٹ پرقابو پاتے ہوئے بولی۔علایہ بتا رہی تھی کہ مہوش تمہیں اپنا نمبر دے کر گئی ہے۔ اجر میری باتk کان کھول کر سن لو وہ عورت کسی کی سگی نہیں ہے۔خبردار اگر تم نے اس سے کوئی رابطہ رکھا۔وہ اپنی بات کہ کر اُسکے سر پر ہاتھ رکھ کر چلے گئے مگر اس کا چہرہ یہ سنکر خوف کی وجہ سے نہ صرف پیلا پر گیا تھا بلکہ ایسا لگتا تھا کے جیسے اسکی رگوں میں دوڑتا ہوا خون بھی کسی نے نچوڑ لیا ہو۔