Skip to content
Home » Social media writers » Fatima Ali

Fatima Ali

Pukar by Fatima Ali Complete novel

  • by

“تت تم” وہ ہکلائی۔ “کیوں لائے ہو مجھے یہاں اور میرے بال” وہ ارد گرد بکھرے اپنے بال دیکھ کر پسینے میں نہا گئی۔

“بڑا غرور تھا تمہارے بالوں کو تمہارے جسم کا حصہ ہونے پر ” وریشہ کو وہ اس وقت کوئی ذہنی بیمار شخص لگا جو اپنی ناکام حسرتوں کا بدلہ اس سے لینا چاہتا ہو۔

اسے اپنا آپ چھڑانے کی کوششیں کرتا دیکھ اسفند بہت لطف اندوز ہورہا تھا۔ جلد ہی کھردری رسی سے اس کی کلائیاں اور پیر چھل گئے اور خون رسنے لگا۔

اسفند آگے بڑھا اور ایک گونج دار تھپڑ وریشہ کے گالوں پر ثبت کیا۔

درد کے مارے وریشہ کی چیخیں نکل گئیں مگر ان ساؤنڈ پروف دیواروں سے آج کوئی آواز باہر نہ جانے والی تھی۔ یا شاید باہر کھڑے وفادار ملازم اندھے بہرے اور گونگے تھے۔

اسفند نے کھینچ کر اس کا دوپٹہ جسے وہ ہمیشہ اپنے سر پر سجائے رکھتی تھی اتارا۔ وہ اسے تکلیف دینے سے زیادہ تڑپانا چاہتا تھا۔

وریشہ چلائی

“خدا کیلیے مجھے چھوڑ دو… مم مججھے جانے دو

“میرے بابا۔ وہ یہ صدمہ جھیل نہیں پائیں گے۔ تم نے مجھے تھپڑ مارنے ہیں؟ مار لو۔ میرے ہاتھ توڑ دو پاؤں توڑ دو۔ مگر میری عزت میرے پاس رہنے دو۔ میرے پاس بس یہی ہے ” اس کے پاس واقعی اب عزت ہی بچی تھی۔

اسفند اسے تڑپتا دیکھ مزید خوش ہوا۔

“اور؟ ” اسفند نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر سوال کیا۔ جیسے جاننا چاہتا ہو وہ اور کتنی منتیں کر سکتی ہے۔

“اور پلیز …دیکھو تمہیں کتنا پیسہ چاہیے میں دینے کو تیار ہوں” وہ اس کی مالی حیثیت سے بخوبی آگاہ تھی مگر پھر بھی یہ بول رہی تھی۔

“ہاہاہاہاا میں تمہاری سات نسلیں خرید سکتا ہوں وریشہ بی بی۔ عزت بنانا چاہتا تھا تمہیں اپنی اور تم نے ۔۔۔ “

اسے تھپڑ والی بات دہرانا اپنی ہتک لگا۔

اس نے آگے بڑھ کر اس کی کلائیاں اور پیر کھول دیے وریشہ اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی مگر وہ باہر سے لاکڈ تھا۔ وہ چلائی اور ہذیانی انداز میں دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔ جواب نہ پا کر وہ پلٹی اور اسفند کو زور سے دھکا دیا۔

اسفند حملے کیلیے تیار تھا۔ آج وہ ہر متوقع صورتحال کیلیے تیار تھا۔ فورا سنبھلا اور پھر سے ایک زور دار تھپڑ رسید کیا۔ وریشہ تاب نہ لاتے ہوئے دور جا کر گری۔ اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا مگر وہ پھر سے اٹھی اور اسفند کے چہرے پر ناخنوں سے وار کیا۔ سفند نے اس کی زخمی کلائیاں مروڑ کر اسے زمین پر پھینکا۔ وہ اس کی مزاحمت ختم کرنا چاہتا تھا۔

زمین پر گری ہوئی وریشہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی جب اسفند نے اسے گریبان سے پکڑ کر اٹھایا۔ اس کا ننھا منھا سا وجود ہوا میں لہراتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ ہتک کے مارے وریشہ کا دل چاہا وہ زمین میں گڑ جائے مگر اذیتوں کے اندوہناک دور سے اسے ابھی گزرنا تھا۔

اسفند اس کی طرف بڑھا تو وہ نہیں نہیں چلاتی پیچھے ہٹنے لگی جلد ہی وہ دیوار سے جا لگی۔ اس نے جھک کر اسفند کے پاؤں پکڑے آج وہ ہر حد تک جانا چاہتی تھی مگر اسفند نے اسے اٹھا کر پھر سے زمین پر پٹخا۔ یہ آخری حملہ تھا۔ اس کی مزاحمت دم توڑ چکی تھی۔