Intaqam e ishq novel by Maheen Ahmad
سر..؟
“ہمممم..”
سر وہ باہر کوئی لڑکی آئی ہے کہہ رہی ہے آپ سے ملنا چاہتی ہے۔
نام کیا بتایا؟ وہ ہنوز کام میں مصروف بولا تھا۔
اسکی خاموشی پر وقاص نے نظریں اٹھائے اسے گھورا۔
کچھ پوچھ رہا ہوں میں۔حوالدار کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔
سس۔۔سر۔۔ووہ۔۔لڑکی بول رہی ہے کہ وہ آپ کی وائف ہے اور نام نہیں بتا رہی۔وقاص نے پچھلے دونوں سے جیسا برتاؤ اپنے تھانے میں سب کے ساتھ رکھ کھا تھا ان سب کی جان جاتی تھی وقاص کے سامنے آتے ہی اور اب یہ بات اسے پتہ تھا اسکے سر کی شادی بھی نہیں ہوئی ہے وہ تو اب اپنی خیر منا رہا تھا۔
اوکے اندر بھیجو اسے۔وقاص کے اتنے نارمل ری ایکٹ پر حوالدار کو تو جیسے کرنٹ ہی چھو گیا۔
کھڑے کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو میرا جاؤ اب۔وقاص خاصے سخت لہجے میں دھاڑا۔
حوالدار جی سر بولتے وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔
وہ باخوبی جانتا تھا اپنی نقلی بیوی کے بارے میں۔
اسلام علیکم۔وقاص نے آواز کے تعاقب میں سامنے کھڑی اس برقع پہنے لڑکی کو گھور کر دیکھا
جی فرمائیے۔کیا کام ہے آپ کو محترمہ۔۔۔؟
واقعی نہیں پہچانا یا جان کے انجان بن رہے ہو۔ملائکہ منہ پر سے برقع اٹھاتی اسکے ٹیبل پر ہاتھ رکھے اسکے سر پر پہنچی تھی۔
جی نہیں میں نہیں پہچانتا۔اپ کام بتائیے اور نکلیئے مجھے اور بھی بہت کام ہیں۔ وقاص فائل دیکھتا مصروف سے انداز میں بولا۔
توبہ توبہ استغفرُاللہ یہ کیسا انسپکٹر ہے اپنی بیوی کو ہی پہچاننے سے انکار کر رہا ہے۔ملائکہ اونچی آواز میں کہتی رونے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔
بیوی کے ذکر پر وقاص نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
وہ اسوقت اپنے آفس میں تھا جہاں اسکی اجازت کے بغیر کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ملائکہ یہ سب ڈرامہ کیوں کر رہی ہے مگر ملائکہ نہیں جانتی تھی کہ وہ یہ ڈرامہ کر کے کتنی بُری پھنسنے والی ہے۔
بیوی۔وقاص نے بہت دلچسپ لہجے میں دوہرایا۔
ملائکہ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔چئیر پر سے اٹھتا اپنے قدم اسکی جانب بڑھائے تھے۔ اسکی آنکھوں میں ابھرتی چمک ملائکہ کا دل ہولا رہی تھی۔وقاص اسکی طرف بڑھتا ملائکہ اپنے قدم پیچھے کی جانب لے رہی تھی اتنے میں وہ دیوار سے جا لگی وقاص نے سرعت سے اپنے دونوں ہاتھ اسکے دائیں بائیں جوڑے تھے۔
تو آپ کا فرمانا ہےآپ میری بیوی ہیں۔
مم۔۔میں۔۔مذاق کر رہی تھی وقاص پلیز دور ہٹو۔
پر میں مذاق نہیں کر رہا۔میری بیوی ہو تو ظاہر ہے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔وہ تنفر سے کہتا قریب ہوا۔
ملائکہ کا دماغ پل میں گھوم گیا۔اپنی گن نکالے اسکے سینے پر رکھی۔
دور رہو مجھ سے ورنہ۔ ملائکہ نے بات اُدھوری چھوڑی۔
تم مجھے اپنے لفظوں سے پہلے ہی مار چکی ہو اس کھلونے سے کسی اور کو ڈرانا۔ اسکا لہجہ کوڑوں جیسا تھا۔
وقاص پلیز میری بات سنو۔ضبط کے باوجود وہ رو پڑی۔
کیا بات سنوں ہاں۔۔کیا سناؤ گی۔میں نے بھی ایسے ہی منتیں کی تھی نا تمہاری ایک بار نہیں بار ہا دفعہ کہا تھا۔ایک بار میری بات سن لو۔۔تم نے سنی تھی۔۔تو آج میں کیوں سنوں۔
تم سنو گے کیونکہ تم میرے جیسے بےحس نہیں ہو۔ملائکہ نے اسکا بازو تھاما۔
بدلے میں وقاص نے اسکا بازو پوری قوت سے جھٹک دیا۔
بےحس تو تم ہو مگر بےرحم بھی انتہا کی ہو ملائکہ صدیقی۔اسکے لہجے کی نفرت ملائکہ کو اپنا دل کرچی کرچی ہوتا محسوس ہوا۔
دفع ہو جاؤ یہاں سے اور اب میرے سامنے آنے کی کوشش مت کرنا میں اب وہ انسپکٹر وقاص نہیں رہا جو تمہارے سامنے کتے کی طرح دم ہلاتا پھرتا تھا۔بہت کر لی تم نے میری تذلیل اب بس میرے سہنے کے حد بس اتنی ہی ہے۔میں کوئی سخت قدم اٹھاؤں اس سے پہلے میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور چلی جاؤ۔