Chah e Yusuf by Nigah Raheel Complete Novel
“کیوں مار رہے ہو اس معصوم کو؟” وہ بچہ جو اس آدمی کے سیاہ لمبے کوٹ کے ساتھ لپکا کھڑا تھا۔۔تیز تیز سانس لیتا ہوا اس دکاندار کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہونٹ کے کنارے سے خون کی بوندیں جو کچھ دیر پہلے کئی بار تھپڑ پڑنے کے باعث بہہ رہی تھیں۔۔ وہ اب سوکھ چکی تھیں۔
“یہ معصوم نہیں ہے صاحب۔ شکل سے جتنا معصوم لگتا ہے نا اتنا ۔۔” اس آدمی کے تاثرات یک دم مزید سخت ہو گئے۔
“میں نے پوچھا کیوں مار رہے ہو اسے؟” اور وہ اس دکاندار کو زہر خندہ نگاہوں سے گھورتے ہوئے کھنکھارا تو وہ یک دم خاموش ہو گیا ۔
جواب نہ ملنے پر اس آدمی نے چند قدم اس کے قریب بڑھائے اور کچھ کہنے کے لیے لب کھولے کہ تب ہی وہ بولا۔
“یہ آپ کا معاملہ نہیں ہے صاحب۔ آپ دور رہیے اس معاملے سے۔” یہ الفاظ سنتے ہی اس بچے نے اس آدمی کے سیاہ کوٹ کو مزید مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔ ڈر تھا کہ کہیں وہ چلا نہ جائے۔ اس آدمی نے کرب سے اس بچے کو دیکھا اور پھر اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔
“تم مجھے جانتے نہیں ہو ابھی۔ اگر میں کہیں ظلم ہوتا دیکھوں تو میری غیرت مجھے یہ گوارا نہیں کرتی کہ اس ظلم پر کسی جانور کی طرح آنکھیں اور کان بند کر کے خاموش رہوں۔۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔” اس نے ارد گرد کھڑے تمام افراد کو غصیلی نگاہوں سے تکتے ہوئے چبا چبا کر کہا تو اطراف میں کھڑے کئی لوگ چہرے چھپانے کی خاطر مجمع چھوڑ کر جانے لگے۔ وہ درحقیقت اپنے کھوکھلے پن اور بےحسی کا بھید کھل جانے پر میسر ہونے والی شرمندگی چھپا رہے تھے۔
“کیوں مار رہا تھا یہ تمہیں؟” وہ آدمی گھٹنوں کے بل اس بچے کے سامنے بیٹھا۔ وہ بچہ خاموشی سے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہا تھا۔
اس نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک ٹشو پیپر نکالا۔۔ اور اس بچے کے ہونٹ کا وہ کنارہ جس میں سے خون رس رس کر سوکھ چکا تھا۔۔ اسے نرمی سے صاف کیا۔
“ڈرو مت۔ بتاؤ مجھے۔ کیوں مار رہا تھا یہ تمہیں؟” اس نے اس بچے کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو اس بچے کو یک دم تحفظ کا احساس ہوا۔ اور اب کی بار اس نے اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو اس محسن کے سامنے بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔
“وہ۔۔ وہ مجھ سے ۔۔ یہ بوتلوں والا ڈبہ گر گیا ۔ تو ساری شیشے کی بوتلیں ٹوٹ گئیں۔” اس نے کچھ ہی قدموں کے فاصلے پر اشارہ کیا جہاں ایک ہلکے بھورے رنگ کا ڈبہ گرا تھا اور ساتھ ہی کئی سافٹ ڈرنکس کی بوتلیں ٹوٹی گری تھیں۔اس آدمی نے یک دم افسوس سے سر جھٹکا۔۔ اور اس بچے کو گلے لگا لیا۔
وہ دکاندار “فضل خان ” غصے اور بےچینی سے لب کچلتے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ لحظے بھر کے بعد وہ آدمی زمین سے اٹھا۔۔ وہ بچہ ابھی تک اس کے ساتھ چپکا تھا۔
” کتنا نقصان ہوا تمہارا؟” اس نے اپنے کوٹ کی جیب سے والٹ نکالتے ہوئے بےحد سرد لہجے میں پوچھا۔
“صاحب وہ۔۔ یہی کوئی بیس ہزار کا۔” اس نے جیسے ہی یہ سنا تو والٹ سے بیس ہزار کی بجائے تیس ہزار نکالیں اور اس کے چہرے کے سامنے طنزیہ انداز میں لہرائیں۔
“یہ رہے تمہارے پیسے۔ اور میری ایک بات کان کھول کر سن لو۔ اگر آج کے بعد تم نے اس بچے پر ہاتھ اٹھایا۔۔ تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا۔اب ایک بچے سے تم اس کی طاقت سے بھی کئی زیادہ کا بوجھ اٹھواؤ گے تو یہی ہوگا نا۔ بچہ ہے وہ۔۔ کوئی جانور نہیں۔ اور اس بچے کو تو کیا۔۔ اب اور کسی بچے کو بھی تم نے ہاتھ لگایا نا۔۔ تو اپنی الٹی گنتی شروع کر دینا۔” اور پھر اس نے وہ پیسے فضل خان کے منہ پر دے مارے۔ وہ اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اس بچے کی طرح باقی کھڑے تماشائیوں کا منہ بھی کھلا کا کھلا رہ گیا۔
فضل خان نے وہ نوٹ جو زمین پر گر گئے تھے، باری باری اٹھائے،ارد گرد کے افراد سے نگاہ ملائے بغیر اس نے وہ نوٹ گنے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس نے پیسے زیادہ دیے ہیں، اس نے کچھ نہیں کہا اور یک دم اس کے چہرے پر ایک مکار سی مسکان پھیل گئی جسے اس نے چند ہی لمحوں میں غصے اور نفرت کے تاثرات سے ڈھانپ لیا۔ وہ سیاہ لمبے کوٹ والا آدمی اس کی بد دیانتی دیکھ کر زیر لب دھیرے سے طنزیہ انداز میں مسکرایا۔
“آپ ۔۔ آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں؟” کچھ لمحے پہلے کہے جانے والے الفاظ پر فضل خان نے پوچھا تو لہجہ سخت نہیں دھیما تھا۔
“دھمکی دینا میری عادت نہیں۔ میں جو کہتا ہوں۔۔ وہ اللہ کے حکم سے کر کے دکھاتا ہوں۔” اس نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اپنے ہر لفظ پر زور دیا۔ فضل خان نے سر جھکا لیا۔۔ یوں جیسے اس پر لرزہ سا طاری ہو گیا ہو۔
اب کی بار وہ آدمی دوبارہ اس بچے کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا۔۔ اور اس کے کان میں کچھ کہا۔ وہاں کھڑے تماشائیوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ فضل خان کا ان کی طرف دھیان نہیں تھا۔ وہ ایک بار پھر وہ نوٹ گن رہا تھا جو اس آدمی نے اس کے منہ پر دے مارے تھے۔ اس نے جو بیس ہزار کا مطالبہ کیا تھا وہ بھی جھوٹ تھا، اصل نقصان تو صرف دس ہزار کا ہوا تھا۔
“اور ہاں! یہ میرا کارڈ رکھ لو تم ۔ اگر آئندہ اس نے تم پر ہاتھ اٹھایا تو مجھے کال کر دینا۔ اس پر میرا نمبر لکھا ہے۔ ٹھیک ہے؟” بچے کے سامنے سے اٹھتے ہوئے اس نے اسے والٹ سے اپنا کارڈ نکال کر تھمایا۔اس بچے کی آنکھوں میں اب امید کی کئی لہریں جھلک رہی تھیں۔
جانے سے پہلے اس آدمی نے ایک تنبیہی نگاہ فضل خان پر ڈالی اور مڑنے ہی لگا تھا کہ وہ بچہ بولا۔
“شکریہ صاحب۔” اس کے لہجے میں بہت کچھ تھا۔۔ تشکر۔۔ امید۔۔ احسان مندی اور نہ جانے کیا کیا۔اس نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر اپنی لینڈ کروزر کی طرف بڑھنے لگا۔
ڈروائیور نے اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولا۔۔ اور واپس اپنی سیٹ سنبھال کر گاڑی وہاں سے لے گیا۔ اس کے جانے کے بعد اس بچے نے وہ کارڈ دیکھا جس پر اسی سیاہ لمبے کوٹ والے شخص کی تصویر کے ساتھ جلی حروف میں اس کا نام لکھا تھا۔
“حلیل ابراہیم۔”اس بچے نے اپنے محسن کا نام زیر لب دہرایا اور پھر اس کی زبان سے خود بخود اس کے لیے کئی دعائیں نکلنا شروع ہو گئیں۔ اتنے عرصے بعد اس نے اگر کوئی دعا کی، تو وہ خود کے لیے نہیں ، بلکہ اپنے محسن کے لیے۔
****************