Dil dosti dharkan novel by Rashna Aziz
” جب میں نے ہزار مرتبہ سب کو وارن کر رکھا تھا کہ میری پرمیشن کے بغیر کوئی اس لان میں سے ایک پتہ تک نہیں ہلائے گا تو پھر آپکی پوتی نے کس
کی اجازت سے پھول توڑا ہے ” گرے ٹریک سوٹ پ پہنے ہاتھوں میں باسکٹ بال لیے ، موٹی موٹی آنکھوں میں شدید غصہ لیے وہ وجودمالی بابا پر بری طرح برس رہا تھا ۔
“اسکی طرف سے میں آپ سے معافی مانگتا ہوں بیٹا یہ نہیں جانتی تھی کہ یہاں سے پھول توڑنا منع ہے۔ یہ کل رات ہی گاؤں سے آئی ہے، اسے معاف
کردو” مالی بابا التجائیہ انداز میں سامنے کھڑے وجود کے آگے ہاتھ جوڑ رہے تھے ۔
” مجھے کچھ نہیں سننا ، اس گناہ کی تلافی یہ جڑے ہوئے ہاتھ نہیں کر سکتے۔”
وہ وجود انتہائی بپھرا ہوا نظر آرہا تھا تبھی تو ایک بزرگ شخص کےجڑے ہوئے ہاتھ بھی اس پر کوئی اثر نہیں کر رہے تھے ۔
“دامی بیٹا ، کیوں صبح صبح اتنا شور مچا رکھا ہے ” تبھی کاریڈور سے دردانہ داؤد کی آواز آئی تھی۔ وہ وجود کچھ دیر پہلے جاگنگ کر کے آیا تھا۔ گھر آتے ہی اُسکی نظر پھول توڑتی ہوئی بچی پر پڑ گئی تو وہیں پر اُس پر برس پڑا تھا۔
” مام ! جب میں نے منع کیا تھا کہ یہاں سے کوئی پھول نہیں توڑے گا توپھر اس بچی کو کس نے اجازت دی؟” اب وہ سہمی ہوئی بچی کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو مالی بابا کی اوٹ میں چھپی ہوئی تھی ۔ وائٹ فراک پرجگہ جگہ مٹی لگی ہوئی تھی ۔
“دامی کوئی بات نہیں ، ایک پھول ہی تو توڑا ہے ، پورالان تو خراب نہیں کیانا . وہ اپنے کسی فرینڈ کو دینے جا رہی ہوگی ۔ تمہیں پتا ہے ، تمہارے پاپا روز یونیورسٹی میں میرے لیے ڈھیروں پھول لایا کرتے تھے اور جو سب سے زیادہ کھلا ہوا ہوتا وہ بڑے پیار سے میرے بالوں
میں لگا یا کرتے تھے ، اور وہ۔۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ کی طرح اپنی یونی کے قصے شروع کرنے لگیں
تھیں تھبی دامی نے انہیں روک دیا تھا۔
“اسٹاپ اٹ مام! آپ کے لیے یہ ایک پھول ہوگا مگر میرے نزدیک یہ بہت بڑی چیز ہے ، اگر کسی انسان کا سر اس کے جسم سے الگ کر دیا جائے تو جو تکلیف اُسے ہوتی ہے وہی تکلیف ایک پھول کو شاخ سے الگ کرنے پر ہوتی ہے اور آپ کہتی ہیں کہ ایک پھول ؟” اُس کا لہجہ ہنوز تلخ ہی تھا ۔۔ ” بیٹا ! اسے معاف کر دو، یہ معصوم ہے آئندہ سے
یہ ایسی غلطی نہیں کرے گی، اگر دوبارہ ایسا ہوا تو آپ مجھے نوکری سے نکال دیجئیے گا پھر وہ تکلیف میرے لیے ویسی ہی ہوگی جیسی انسان کے جسم سے سر اور پھول کے شاخ سے جدا ہونے کی ہوتی ہے “۔ وہ عاجزی سے سر جھکائے ہوئے کہہ
رہے تھے۔ اُس وجودکے دل کے کچھ ہوا تھا۔ وہ بنا کچھ کہے اندر کی طرف بڑھ رہا تھا
” ارے دامی ! سنو تو میں کیا کہہ رہی تھی تمہارے پاپا میرے بالوں میں پھول لگانے کے بعد کیا کہتے تھے ؟ دردانہ داؤد اسے پکارتی رہ گئیں ۔۔