Skip to content
Home » Social media writers » Sumera Sarfraz

Sumera Sarfraz

Hum k masloob e wafa by Sumera Sarfaraz Complete Novel

  • by

میلمہ نے لالہ رخ کو اسی بدتمیز آدمی کی گاڑی سے اترتے دیکھا تھا۔
“کسے گھور رہی ہو؟”
اٰصال جبھی آیا تھا۔ میلمہ چونکی۔
“کچھ نہیں وہ فرسٹ ایئر کی لالہ رخ ہے۔۔”
اس نے اجلال کی گاڑی کی طرف اشارہ کیا جس سے لالہ رخ نکل کر اب شیشے میں جھکی اجلال سے کچھ کہہ رہی تھی۔ اٰصال نے دیکھا مگر غور کئے بنا اپنے موبائل پر جھک گیا۔ اجلال کی نظر میلمہ پر پڑ چکی تھی۔ اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر اجلال کے چہرے پر بھرپور مسکراہٹ ابھری۔
“یہ حسینہ کون ہے؟”
اس نے لالہ رخ سے پوچھا جو اسے کچھ بتا رہی تھی۔ لالہ نے برا مانتے ہوئے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔
“وہ نک چڑھی میلمہ عسکری ہے۔۔ فائنل کی سٹوڈنٹ۔”
اس نے منہ بنایا۔
“سجتا بھی ہے غرور۔۔ میلمہ! ”
اجلال بدستور اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میلمہ کو غصہ آنے لگا۔ ساتھ کھڑے اٰصال کا دانستہ طور پر بازو پکڑے اسے دوسری طرف کھینچنے لگی۔ وہ کسی کو ٹیکسٹ کررہا تھا۔ چڑ گیا۔
“کیا مصیبت ہے کیوں کھینچ رہی ہو مجھے؟”
اسکا جھنجھلانا اجلال نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا۔ پھر زیر لب مسکراتا ہوا گاڑی بهگا لے گیا۔ میلمہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے گھبرا رہی تھی۔ پتا نہیں کیوں؟

Rah e wafa mushkil sahi by Sumera Sarfaraz Complete

  • by

“عامر فاروقی کون ہے ہنیہ؟”
ہنیہ کو زور دار برقی لہر چھو گئی۔ زبان گنگ ہوگئی اور آنکھیں پھٹ گئیں۔ وہ غائب دماغی سے سجاد کو دیکھنے لگی۔ منعم بھی حیران تھی کہ سجاد کو کیسے پتا چلا۔
“بولو ہنیہ؟ کون ہے یہ آدمی؟ تم جانتی ہو اسے ؟”
سجاد غصہ دبا رہا تھا۔
“بھائی وہ۔۔میرا نیٹ فرینڈ۔ ”
وہ منمنائی.
“وہی نیٹ فرینڈ جس سے رشتہ بھیجنے کی فرمائش کرکے تم کل اس سے ملنے جارہی ہو؟”
افف کس قدر تذلیل محسوس ہوئی تھی ان جملوں سے۔۔یہ محبت اسے رسوا کررہی تھی۔ منعم منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
“ہنیہ کیا یہ سچ ہے؟”
“نہیں بھائی ملنے نہیں بس دیکھنے۔۔ پھر وہ رشتہ بھیج دے گا۔”
وہ حد سے زیادہ بیوقوف تھی۔
“ہنیہ میرے بچے۔۔۔ کوئی رشتہ نہیں بھیجے گا۔۔ فلرٹ ہے وہ ایک نمبر کا۔۔ پتا نہیں کتنی ہی لڑکیوں کو ملنے بلا چکا ہے۔ اسے بھی بیوقوف ہی بنایا ہے اس نے۔۔ نیٹ پر سب جھوٹ ہوتا ہے ایسے یقین نہیں کرلیتے اور تمہیں شادی کی کیوں پڑ گئی؟ عمر نکل گئی یا ہم مر گئے؟”
سجاد معاملے کو نزاکت سے سنبھال رہا تھا۔ وہ خاندانی لوگ تھے۔ غصے سے وہ باغی ہوسکتی تھی۔
“تمہیں یہ سب کیسے پتا؟”
منعم نے تھوک نگلا۔
“علی بھائی ہیں نا پیچھے جو دو گلی چھوڑ کر رہتے ہیں۔ وہی ہمارے علاقے میں کیبل نیٹ پرووائیڈر ہیں۔ علاقے کے سارے کمپیوٹرز کا ایکسیس ہے انکے پاس۔۔ یہ پچھلے ڈیڑھ سال سے اس لڑکے سے رابطے میں ہے۔ جب تک سب نارمل تھا تب تک انہوں نے بھی نوٹس نہیں لیا مگر اب جب یہ رشتہ شادی اور ملنے ملانے جیسی خرافات میں پڑ گئی تو انہوں نے مجھے کال کیا۔۔مینو تم سوچ سکتی ہو کیسی ذلت محسوس ہوئی ہوگی مجھے۔”
سجاد کا لہجہ ڈوب گیا تھا۔ ہنیہ اپنی دھجیاں اڑتی ہوئی دیکھ رہی تھی۔ وہ برف ہوگئی تھی۔
منعم نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ وہ جانتی تھی ہنیہ ٹوٹ رہی ہے۔
“علی بھائی نے اسکی چیٹس دکھائی مجھے۔۔ یہ اسکو بتا رہی تھی کہ یہ کیسی دکھتی ہے۔۔ایک غیر مرد کو دعوت دے رہی ہو تم ہنیہ؟”
ہنیہ نے چہرہ چھپا کر رونا شروع کردیا۔ وہ اصلی زندگی میں کتنی شریف تھی۔ کتنی معصوم۔ کوئی راہ چلتا بھی اسکی حیا اور کردار کی گواہی دے دیتا اور یہ نہ دکھائی دینے والی جادوئی نگری اسکی شرافت پر سوال اٹھا رہی تھی۔ وہ کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا سچ تھا اور کیا جھوٹ۔۔