’’رکیں ۔۔!! ‘‘ وہ ایک دم کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
وہ جو، اب ہاتھ میں فون تھامے اس پر کچھ دیکھ رہا تھا اس کی جانب متوجہ ہوا۔ فون والا ہاتھ اب بھی ویسے ہی تھا بس گردن اس کی جانب گھمائی تھی۔
’’آپ نے مجھے میرے دادا کے بارے میں نہیں بتا یا۔۔مجھے پوچھنا تھا کہ انہیں۔۔۔‘‘
’’آپ میرے سوالات کے ٹھیک جوابات نہیں دے رہیں ، میں آپ کو کچھ نہیں بتاسکتا، ‘‘ سنجیدگی سے کہ کر وہ اب فون میں کچھ ٹائپ کرنے لگا۔
’’ آپ اور کیا جاننا چاہتے ہیں ۔۔میں نے آپ کو جواب دے دئے ہیں ۔‘‘ وہ کھڑے کھڑے ہار مان جانے والے انداز میں بولی ۔ اب وہ اس کی جانب آیا ۔ اور ٹیبل سے ڈائیری اٹھالی ،
’’ ابھی جو آپ کو درد محسوس ہوا ۔۔وہ اس ڈائیری کی وجہ سے ہے کہ نہیں ۔ ۔۔ ؟؟ ‘‘ لہجہ اٹل تھا ، گہری آنکھیں اس کی آنکھوں پر جمی تھی ۔ وہ کچھ لمحے اس کی آنکھوں میں دیکھے گئی ، پھر اچانک سے نظریں اس کی ہاتھ میں ڈائیری پر جمائی ۔ اب وہ دوبارہ کبھی اوپر نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری ۔
’’ نہیں یہ جادوئی نہیں ہے ۔۔‘‘ نفی میں سر ہلاتے اس نے ڈائری پر ہی نظریں مرکوز رکھیں ۔ ایک ہاتھ کندھے سے لٹکتے بیگ پر تھمائے ۔ دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں اس نے اپنا کوٹ بھینچ سا ڈالا۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اسے جلد از جلد یہ گفتگو ختم کرنی تھی ۔اسے وہ شخص بہت برا لگ رہا تھا ۔سخت برا ۔۔۔زہر کی طرح ۔
’’ہوں ٹھیک ہے ۔۔ ‘‘ اب کی بار وہ مسکرایا اور ڈائیری اپنی جیب میں ڈال دی ۔
’’ کچھ اور دیکھا ہے آپ نے ۔۔جو جادوئی نہ ہو ۔۔‘‘ پریسہ کی آنکھیں اس جملے پر بے ساختہ اوپر کو اٹھی ۔ وہ خاموش رہی ۔ کچھ بول نہ پائی ۔ (یہ شخص ضرور کچھ جانتا تھا)
’’ آپ کے دادا کو میں نے اس ہوٹل کے کلب میں کسی سے بات کرتے سنا تھا۔ ایک شخص انہیں دھمکی دے رہا تھا۔‘‘ اس نے اس کے تاریک ہوتے چہرے کو دیکھا۔
’’کیسی دھمکی ۔۔۔؟؟‘‘ وہ فورا بولی ۔
’’ کہ انہوں نے کاٹیج کیوں بیچ دیا ۔۔۔شائد وہ شخص اسے لینا چاہتا تھا۔ ۔‘‘
’’کیا آپ نے وہ دھمکی سنی تھی ۔۔کیسی دھمکی تھی کیا جان لینے کی ۔۔۔؟؟ ‘‘
داؤد سلطان کے کانوں میں وہ دھمکی گونجی ، ( دو دن کے اندر اندر اس لڑکے سے کاٹیج لو اور میرے حوالے کردو ، منہ مانگی رقم مل جائے گی۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو تم زمین کھود ڈالوگے لیکن تمہیں پریسا کہیں نہیں دکھے گی۔ ۔۔‘‘)
’’ اگر وہ تم سے بہت قریب تھے تو ان کے لئے ۔۔جان لینے جیسی ہی تھی ۔ لیکن اس میں قتل کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ۔‘‘ اس نے دیکھا ، کہ نمی اس لڑکی کی بڑی سیاہ آنکھوں میں اتری جسے اس نے پلکیں جھپک کر پیچھے دھکیلا۔ پھر اس کا چہرہ سرخ ہوا جیسے اور بھنوئیں تن سی گئی ۔
’’اس شخص کو جانتے ہیں آپ ، کیا عموما یہیں آتا جا تا ہے ۔۔‘‘
’’اگر جانتا تو کیا کرلیتیں آپ ۔۔‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’وہی جو اس نے میرے دادا کے ساتھ کیا تھا۔۔!!‘‘ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔
اس نے کچھ لمحے اس کو دیکھا اور بولا ۔ ’’ لیکن میں نے اس شخص کو کہیں نہیں دیکھا۔
وہ کچھ دیر ویسے ہی کھڑی رہی ۔ ، کوئی آواز اس کے زہن میں گونجی ۔ ( اس شخص کو جھیل کے کنارے لے آنا ، جس کے پاس تمہاری ماں کی ڈائری ہے) ، وہ لب کاٹنے لگی ۔ بار بار بیگ کی سٹرپ ٹھیک کرتی ۔
’’ٹھیک ہے تو پھر میں آپ کا مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ شکریہ ۔ لئے دئے لہجے میں کہتا وہ پلٹنے لگا۔ نگاہیں اب پھر سے فون کی سکرین پر تھیں ۔ وہ اس کی پشت کو دیکھنے لگی ۔(نہیں وہ اس سے مدد نہیں لے سکتی ، یہ شخص مشکوک لگتا ہے ۔۔) ۔
(اگر تم سب کچھ جاننا چاہتی ہو تو اس شخص کو یہاں لے آنا) ۔ ۔اس نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔ (کیا اسے اس سے مدد لینی چاہئے ؟؟ لیکن ایسا کیا ہے جو وہ شخص اس سے ملنا چاہتا ہے ) ۔ اس کا چہرہ مختلف جذبات کے زیر اثر تھا۔ وہ مسلسل لب کاٹ رہی تھی ۔باربار بیگ کو درست کرتی۔ پھر آخر کار اس نے فیصلہ کیا۔
’’رکیں ۔۔۔۔۔پلیز ‘‘ وہ ہال سے نکلنے ہی لگا تھا ، جب اس کی کھنکھتی آواز اس کے کانوں میں گونجی ۔
داؤد سلطان کے چلتے قدم عقب سے آتی اس کی آواز پر رکے ۔ عقب سے بھاگتے قدموں کی آواز آئی اور وہ اس کے مقابل آکھڑی ہوئی ۔
’’مجھے آپ کی مدد چاہئے ۔۔!!‘‘
’’کیسی مدد ۔۔۔؟؟ اس نے ابرو اچکائی۔ ’’میں آپ سے کچھ شیئر کرنا چاہتی ہوں ۔۔جو ۔۔۔میں نے خود اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا ہے ۔ شائد آپ اس پر یقین کرلیں ۔۔کیونکہ کوئی اور نہیں کررہا ۔ ‘‘ اس نے انگلیاں مروڑتے ہوئے ایک جھوٹ گھڑا۔ وہ جانتی تھی اس بات پر اسے مدد مانگنے میں آسانی ہوسکتی ہے ۔