Skip to content
Home » Rude Heroine Novels

Rude Heroine Novels

Doodh wala by Saira Khan Complete novel

  • by

مجھے اندازہ نہیں تھا میری بیوی کے

دل میں میرے لیے اتنی محبت چھپی ہوئ ہے

میں تو سمجھتا تھا انتہائ مجبوری میں میرے ساتھ رہ رہی ہے ۔۔وو اس کے چہرے سے بال ہٹاتے اس کے روۓ روۓ چہرے کو

دیکھتے مبتسم ہو کر بولا ۔۔

یو نو نویرہ؟

بچپن سے میں نے جس سے بھی شدید محبت کی اور اس کے ساتھ ہمیشہ رہنے کی خواہش کی وو ہی مجھ سے دور ہو گۓ ۔۔پہلے بابا

پھر امو جان ۔اور اب تم ۔۔مجھے لگا آج نہیں تو کل تم مجھے چھوڑ کر اپنے گھر چلی جاؤ گی ۔ان کے بعد میں تمہیں خود سے دور ہوتا نہی دیکھ سکتا تھا

اس لیے میں نے سوچا میں خود ہی ہمت

کر کے تمہیں ابھی جانے دوں ۔۔

وو سر جھکاۓ ہونٹ کاٹتے زمین کو گھورتا بول رہا تھا۔۔

مگر پھر قسمت نے مجھے اولاد کی خوش خبری دے کر ایک اور آزمائش میں ڈال دیا۔

میں تو تمہیں خود سے دور کرنے کی ہمت

نہیں کر پا رہا تھا ہر پل یہ ہی کھٹکا رہتا

اگر تم نے واقعی پیپر پر سائن کر دیے تو

اگر تم واقع مجھے چھوڑ کر چلی گئ تو ۔۔

ہر پل یہ ہی سوچتا کاش ٹرین اور ہوٹل میں

ہماری ملاقات نا ہوتی۔۔تو ہم بھی آج نارمل

کپل کی طرح رہتے

وو مظبوط مرد اپنے دل کی کیفیت بیان کرتے

اس کے سامنے ٹوٹ رہا تھا ظبط کے باوجود

پلکیں نم ہو رہی تھی ۔

جبکہ نویرہ خود اسکے دل کی باتیں سن کر دکھی ہو رہی تھی ۔۔

اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے ریہان شاہ کا سر اوپر کیا

میں کبھی تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤنگی

Jan e aziz by Soni Mirza Complete novel download pdf

  • by

“سر وہ۔۔۔۔ہم جس انسان کو ڈھونڈ رہے تھے اس کا پتہ چل گیا ہے۔”
“کس کا؟” وہ الجھ کر پوچھنے لگا۔
“ٹائیگر کا۔” جواب سن کر اس نے اپنی بھنویں چڑھا لی تھیں۔
“کوئی ثبوت بھی ملا اس کے خلاف؟”
“نہیں سر۔۔۔۔۔وہ کوئی ثبوت چھوڑتا ہی نہیں ہے۔ بڑی مہارت سے مارتا ہے۔”
“یہ پتہ چل گیا کہ وہ کہاں رہتا ہے؟”
“یہ بھی پتہ نہیں چلا سر۔”
“بے وقوف انسان! تو پھر پتا کیا چلا ہے؟” وہ دھاڑنے لگا۔
“سر یہ پتہ چلا ہے کہ بہت سے بڑے بڑے غنڈوں کو بے دردی سے موت دینے والا ٹائیگر ہے۔ اسے ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں ہے سر۔۔۔۔۔کسی نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا۔۔۔۔اور جو اسے دیکھ لیتا ہے وہ پھر بیان کرنے کے لیے زندہ ہی نہیں رہتا۔”
“ڈھونڈو گے کیسے پھر اسے؟”
“سر لاسٹ ٹائم اس نے مارلوّ کو اٹھایا ہے۔ اگر مارلوّ کا پتا چل جاۓ تو اس تک پہنچ سکتے ہیں۔”
“مارلوّ تو ہے ہی ایک نمبر کا گھٹیا شخص!۔۔۔۔۔لیکن اس ٹائیگر تک پہنچنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔میں بھی ملنا چاہتا ہوں جرمنی کے ڈون سے۔۔۔۔۔دیکھوں تو سہی کہ کون ہے یہ گناہوں کی دنیا کا بادشاہ؟” ایک طرف نگاہ جما کر وہ سفاکیت سے بولا اور پھر خود ہی کال بند کر کے فون کو اچھالے بستر پر پھینک دیا۔ اگلے ہی ثانیے اس نے پھر سے شراب کی بوتل کا گھونٹ بھرا۔