ezreaderschoice

Novels World

Kartar Pur by Sidra Taswar Article

“کرتارپور” میرا نہیں خیال کہ اب اس لفظ سے کوئی پاکستانی یا پھر ہندوستانی نا واقف ہو گا اس قدر اہمیت ملنے کہ بعد ہمیں  بھی وزٹ کرنے کا خیال آیا بھئی جب ملک بھر سے سیاح کرتار پور گھومنے آ سکتے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں ہم کسی سے کم ہیں کیا اس خوبصورت سوچ کہ ساتھ عیدالضحی کے تیسرے دن آگ برساتے سورج کے زیر سایا ہمیں کرتار پور جانے کا اتفاق ہوا دو گھنٹے کی طویل مسافت کے بعد دیدار کرتار ہوا کرتار پور روڈ اینٹری پر “خوش آمدید گوردوارہ سری دربار صاحب کرتارپور”دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا (مطلب ہمیں خوش آمدید کہا گیا) جی پھر چیک پوسٹ کا سلسلہ  شروع ہوا پہلی بار گاڑی رکی دو فوجی سا منے کھڑے نظر آئے شناختی کارڈ چیک ہوئے جو کے گاڑی میں صرف دو افراد کے پا س تھے ایک ڈرائیور اور دوسرے ہمارے چاچو جو کہ اس فیملی ٹور کہ سربراہ تھے ہم نے سوچا چیکینگ ہو گئی اب تو اندر جا کر ہی رکیں گے  لیکن جلد ہی ہماری یہ خوش فہمی بھی دور ہو گئی جب دو ایکڑ کے فاصلے پر پھر روکا گیا اور پھر یہ عمل کئی بار دوہرایا گیا اب دوبئی ائیر پورٹ کی فیلینگ آنا شروع ہو گئی  تھیں بلکہ کیا ہی وہاں بھی اتنی سکیورٹی ہو گی جتنی کرتار پور روڈ پر اور اب تو گاڑی بھی ہماری طرح چیکینگ سے تنگ آ چکی تھی اور اب شاید آرام چاہتی تھی سو پنکچر ہو گئی اور مجبورا ہمیں اسے آرام کرنے دینا پڑا اب تقریبا ایک کلو میٹر ہمیں آپنے نازک پاؤں کو تکلیف دینا تھی آخر کار ہم نے یہ مرحلہ بھی سر کر ہی لیا اور ٹکٹ ہاؤس پہنچے ہم اناڑی پہلی بار گئے تھے سو پتہ نہیں تھا کیا کچھ درکار ہوتا ہے ٹکٹ لینے کے لیے ٹکٹ کی اپیل دائر کی تو پتہ چلا تمام افراد کا شناختی کارڈ پاس ہونا ضروری ہے اور بچوں کے برتھ فارم بھی ان کے بغیر اندر جانا ممنوع ہے وہاں ایک بار چیکینگ کے بعد بنا ٹکٹ کہ بقول ایک فوجی کہ ٹکٹس آپ کو آگے بھی مل سکتیں ہیں ائی ڈی کارڈز اور برتھ فارم کی پکس واٹس اپ کروا لیں لیکن آگے جانے سے پہلے آپ مجھے ایک بات ضرور بتائیں آپ دیکھنے کیا آیے ہیں یہاں ایسا ہے کیا ٹکٹ کے پیسے ہی ضائع کرنے ہیں آپ نے چار سو روپے فی ٹکٹ چاہے ساتھ ایک سالہ بچہ ہو یا ساٹھ سالہ بوڈھا ٹکٹ جوں کی توں رہے گی چار بج چکے تھے وہاں سیاحت کا وقت پانچ بجے تک تھا سو ہمارے پاس ٹھہرا ایک گھنٹہ وہاں دو وین چکرا رہی تھیں ایک جاتی تھی تو دوسری آتی تھی ویٹنگ سٹینڈپر کچھ دیر رکنے کے بعد ایک فوجی بھائی نے زبردستی وین میں دھکیلا اور ساتھ ہی ساتھ نصیحت بھی کر دی کہ فضول پیسے ضائع نہ کریں اندر کچھ بھی نہیں جو اندر ہے وہ باہر سے بھی نظر آجاے گا اور اگر  پھر بھی جانے کا دل چاہے تو وہ شوق بھی پورا کر لیجیے گا ٹکٹس آپ کو وہاں سے بھی مل جائیں گے وین کے ذریعے ہم منزل مقصود پر پہنچ گئے وین سے اترتے ہی ایک لمبی لائن دیکھائی دی پتہ چلا یہ معصوم بھی ٹکٹس لینے اور چیکینگ کے لیے کھڑے ہیں  ساتھ ہی ایک اعلان بھی سنائی دیا اندر آنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کہ پاؤں جوتوں سے آزاد ہوں،خواتین کہ سر پر دوپٹہ لازمی ہو،وڈیو کال نہیں ہو گی،تصویر یا ویڈیو کوئی نہیں بنائے گا ایسا کرتا گیا کوئی پایا گیا تو موبائل فون ظبط کر لیا جاے گا بس پھر کیا تھا دل پہلے ہی اچاٹ ہو چکا تھا باقی کسر اب نکل چکی تھی اب تو بھوک سے بھی برا حال تھا کھانے پینے کی چیزیں دور دور تک کہیں دستیاب بہ تھیں سو دوسری وین میں بیٹھ کر واپس وہی آ گئے گاڑی پنکچر شاپ سے اب تک واپس نہیں آئی تھی( مطلب اتنا لمبا آرام ) مزید تیس منٹ ویٹ کرنے کے بعد گاڑی تشریف لائی پھر کبھی نہ أنے کا عہد کر کے سب گاڑی میں بیٹھے سوائے میرے جانے کا مشورہ میرا تھا سو بھرم رکھنا پڑا اور واپسی کا صفر باندھا اگر آپ کا کبھی جانا ہو تو ان چیزوں کا خیال رکھیے گا شا ید آپ کا ایکسپیرنس اچھا ہو

By sidra taswar