ezreaderschoice

Novels World

Ustad baap ki trah hota hai article by Tehmina Fatima


اُستاد باپ کی طرح ہوتا ہے:
 تحریر تہمینہ فاطمہ


قارئین کرام! ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمیں جابجا یہ کہنے اور سننے کو ملتا ہے کہ اُستاد باپ کی طرح ہوتا ہے۔جی ہاں اُستاد باپ کی طرح ہوتا ہے لیکن حقیقی باپ نہیں ہوتا۔منہ بولے رشتوں کی اسلام نے سخت ممانعت کی ہے۔تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم اُستاد ہی کی بدولت ہیں۔باپ کی حقیقت تو اُس وقت منظر عام پر آ جاتی ہے جب ہر روز میڈیا پر یہ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ آج فلاں ادارے کے اُستاد نے فلاں بچی یا بچے کے ساتھ جنس زیادتی کر ڈالی۔اُستاد کے معمالے ہمارا کردار اُس کبوتر جیسا ہے جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے خود کو یقین دلانے کی نا کام کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ بلی نہیں آئی اور آن کی آن میں بلی کا شکار بن جاتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔
قارئین کرام ! بیسیوں ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں روز ہوتے ہیں ہم پھر بھی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔
ہمارا تعلیمی نظام غلط پگڈنڈی پر چل رہا ہے۔یہاں نہ تعلیم معیاری ہے نہ اُستاد معیاری ہے۔ یہاں علم سے روشناس کرانے والے کا دل جہالت کی عمیق گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔یہاں علم کے نام پر بس کاروبار ہو رہا ہے۔کوئی ان نام نہاد اُستادوں سے پوچھنے والا نہیں ہے؟کسی ایک کو بھی اس کے گناہ کے پاداش سر عام سولی پر نہیں چڑھایا گیا تاکہ اگلے پچھلوں کے لئے عبرت بن جاتا۔یہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا قانون عام ہے۔کہا جاتا ہے دوسروں کو اپنا نظریہ سمجھانا نہایت مُشکِل ترین کام ہے۔اِس لیے تو معلمی جیسا عظیم پیشہ خُدا وند عالم نے انبیاء کو عطا کیا۔
اِس ملک میں اقتدار کی خاطر مُشکِل فیصلے کیے جا سکتے ہیں لیکن دین اسلام کی پاسداری کی خاطر مُشکِل فیصلے نہیں کئیے جا سکتے۔
ہمارا تعلیمی نظام ایک کامیاب، با کردار اُستاد پیدا کرنے میں نا کام ہے اور کامیاب ہو ہی کیسے سکتا ہے اِن دنیا پرست اساتذہ کے وجود سے۔ہمارے مُلک میں اُستاد وہ بنتا ہے جو ڈاکٹر یا انجینئر بننے سے ره جاتا ہے۔ایسا اُستاد کیسے قوم کا معمار بن سکتا ہے؟جس کو خود با امر مجبوری معلمی جیسا معزز پیشہ اختیار کرنا پڑ گیا ہو۔
میری حکومت وقت سے گزارش ہے کہ اقتدار کی خاطر مُشکِل فیصلے کرنے کی بجائے قوم کی خاطر مشکل فیصلے کرے۔قوم سازی کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔ تعلیمی نظام کو گھٹیا استادوں کے وجود سے پاک کیا جائے اگر ایسا بروقت نہ کیا گیا تو یہ گھٹیا لوگ اُستاد کے روپ میں چند سالوں میں معلمی کے پیشے کو داغدار بنا دیں گے۔اقوامِ عالم میں پاکستان اپنا وقار کھو دے گا۔میری گزارش ہے کہ معلمی کے پیشے سے دلچسپی لینے والوں کو تعلیمی نظام میں متعارف کرایا جائے۔
اگر ہم تعلیمی نظام میں با کردار،نیک اُستاد متعارف کرانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ وقت دور نہیں ہم اقوامِ عالم میں کھویا ہوا وقار بحال کر لیں گے۔چینی مفکر لوتزو کا کہنا ہے کہ جس معاشرے میں سچ بولنے پر زور دیا جائے تو سمجھ جاؤ کہ اس معاشرے میں میں سچ اپنا وجود کھو چکا ہے ،ایمانداری پر زور دیا جائے تو سمجھ جاؤ کہ ایمانداری رخصت ہو چکی ہے۔ہمارے تعلیمی نظام میں سچ بولنے اور ایمان داری کے عنوان دس نمبر کا مضمون ہوتا ہے جسے بچہ رٹہ لگا کر نمبر تو حاصل کر لیتا ہے مگر یہ اوصاف پیدا نہیں کر سکتا۔یہاں میریٹ کی بُنیاد صرف نمبر ہیں کردار نہیں۔خُدا را تعلیمی نظام پر توجہ دیں اِس وقت پاکستان میں جس شعبے کو سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے وہ تعلیم اور تعلیمی نظام ہے۔
آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مُلک پاکستان کو شاد و آباد رکھے۔آمین
یہ کالم اِس امید پر لکھا گیا ہے شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

.

*************