Skip to content
Home » Social media writers » Rushna Aziz

Rushna Aziz

Mohabbat ho to aesi by Rushna Aziz Complete novel download pdf

  • by

۔ وہ دوبئی کے ہسپتال میں تھی۔

اس وقت وہ آئی سی یو میں تھی۔ رنگت پیلی٫ کمزور لا غرر جسم

خشک ہونٹ٫ چہرہ ایسے لگ رہا تھا جیسے صدیوں کا تھکن زده –

پورا وجود اس کا مشینوں سے چل رہا تھا ۔ پچھلے چار سالوں سے وہ اسی

طرح تو سانسیں لے رہی تھی۔ بیس سال کوئی عمر تو نہیں ہوتی بستر

مرگ پر پڑنے کی ۔ مگر پچھلے سال یہی دسمبر کے دن تھے جب وہ

ولی کا ہاتھ تھام کر اس نئی دنیا میں آئی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ

وہ اتنی خطرناک بیماری میں مبتلا تھی ۔

یہ بیماری اسے کیوں ہوئی تھی ولی یہ با ت بہت اچھے سے جانتا تھا۔ وہ اس

کے سر ہانے بیٹھا خاموش آنسو بہا رہا تھا ۔ کتنی محبت کرتا تھا

وہ اُس سے ۔ مگر وہ تو صرف ایک ہی شخص کے لیے جیتی تھی۔

اُسی سے محبت کرتی تھی ۔ اور جب وہ شخص اُسے ہمیشہ ہمیشہ

کے لئے چھوڑ کر چلا گیا تو وہ بھی دنیا سے کٹ گئی تھی۔ وہ تو شاید

پیدا ہی صرف اُسی سے محبت کرنے کے لئیے ہوئی تھی نہ اسکی اور

کوئی خواہش تھی نہ کوئی مقصد بس صبح ہوتے ہیں اُس کا چہرہ

دیکھتی اور دیکھ کر جیتی تھی۔ سارا دن اُسکی سنگت میں رہتی ۔ محبت

کرتی محبت ہی لیتی – رات کا اختتام بھی اُس کا چہرہ دیکھ کر کرتی۔

وہ صرف سولہ سال کی تھی جب وہ شخص اُسکی زندگی سے گیا تھا ۔

اور آج صرف وہ بیس سال کی تھی اور اُس شخص کے پاس۔

***********

” فاطمہ! کیا ہوا ہے ، آپ ایسے یہاں اکیلی بیٹھ کر رو کیوں رہی ہیں؟

” ایم سوری بابا:”وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی ۔ساتھ ہی اس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔

” سوری کس لیے بیٹا بتائیے کیا ہوا ہے؟” ہوہ اس کا آنسوؤں سے بھیگا چہرہ اوپر کرتے ہوئے فکرمندی سے پوچھ رہے تھے ۔

“ایم سوری بابا ! پلیز مجھے معاف کردیجیے میں بالکل بھی اچھی نہیں ہوں ” وہ ان کے سینے سے لگ گئی تھی ۔

“اچھا پہلے یہ رونا بند کیجئے ” انہوں نے اسے الگ کر کے ہمیشہ

کی طرح آنسو صاف کر دیئے تھے۔

” اب بتائیے کیا بات ہے؟

” بابا ! آپ مجھ سے اتنی محبت کرتے ہیں ، میری ہر خواہش زبان

پہ آنے سے پہلے ہی پوری کرتے ہیں، آج پہلی بار آپ نے مجھ سے

کوئی فرمائش کی تھی اور میں نے سب خراب کر دیا ۔ پلیز!

مجھے معاف کر دیجئے” وہ پھر سے ان کے گلے لگ گئی تھی۔

“میں کچھ نہیں کر سکتی بابا ! میں آپکی محبت کا قرض کیسے اتاروں؟ “وہہ پھوٹ پھوٹ کر رو ر بی تھی ۔ محمد عبد اللہ کی شرٹ اس کے آنسوں کی وجہ سے بھیگ چکی تھی۔

“پہلی بات!ماں باپ جو اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں وہ قرض نہیں ہوتی ۔وہ اولاد کا حق ہوتا ہے ۔اور دوسری بات یہ آپ نے کیسے کہہ دی؟یہ آپ سے کس نے کہا کہ آپ کچھ نہیں کرسکتیں، میری بیٹی دنیا کی سب سے اچھی بیٹی ہے جو اپنے سے جڑے لوگوں کے لئے بہت کچھ کر سکتی ہے ، جبھی تو آج اس نے اپنوں کی فرمائش پوری کرنے کے لیئے اپنے ہاتھ جلا لیے اور اپنے درد کو ظاہر بھی نہیں ہونے دیا۔” وہ دھیرے دھیرے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرر ہے تھے۔ انہوں نے اسے خود سے الگ نہیں کیا تھا۔

مگر بابا کھانا تو پھر بھی اچھا نہیں بنا۔”

” . فاطمہ! ایک بات کہوں؟ آپکے ہاتھ میں ماشاءاللہ بہت ذائقہ ہے۔ اور کھانا بہت مزے کا تھا بس ذرا مرچیں زیادہ تھیں ۔ یہ تو ایک معمولی سی بات ہے۔ غلطی تو ہر انسان سے ہوتی ہے آپ سے بھی ہو گئی۔ انشاء اللہ ایک دن مکمل سیکھ بھ جائیں گی ۔بس اپنا دل برا نہیں کرتے ۔ وہ پوری ایمانداری سے کہہ رہے تھے۔

” بابا ! آپ لوگوں کا کھانا تو پھر بھی کچھ ٹھیک تھا مگر بھنڈی میں بہت زیادہ مرچیں تھیں ۔ اور ولی بھائی نے ایک بار بھی اپنا ہاتھ نہیں روکا ان کی آنکھوں میں پانی میں نے خود دیکھا ہے۔ اور میں جانتی ہوں وہ زیادہ سپائسی ڈشز نہیں کھا سکتے ۔ انہیں کتنی تکلیف ہو رہی تھی”۔ اب وہ خود بھی ان سے الگ ہو کر حیرت سے کہہ رہی تھی ۔

“بیٹا وہ ایسا ہی ہے۔ وہ تمہارا دل نہیں دکھانا چاہتا تھا۔”

“مگر بابا ، اُنکی تکلیف …۔”

” تم نے بھی تو میری ڈش بنانے کے لیے اپنا ہاتھ جلا لیا تھا ، کیا تمہیں تکلیف نہیں ہو رہی تھی اس وقت۔” ولی جگ میں پانی لینے کے لیے کچن میں آیا تھا اپنا ذکر فاطمہ کے منہ سے سن کر اسکے ہونٹوں پہ ایک الگ سی مسکراہٹ آئی تھی۔

اپنی بات کہتے ہوئے وہ بھی اسی طرف آ گیا تھا ۔

وہ دونوں کھڑے ہوگئے تھے۔

“ولی بھائی!،تھوڑا سا ہی تو جلا ہے “

“یہ تھوڑا سا جلا ہے ۔ زبان کی جلن تو میٹھا کھاتے ہی جھٹ سے ٹھیک ہوگئی ہے ۔مگر یہ تمہارے ہاتھ کی جلن ٫اسکا کیا۔” محمد عبد الله ولی کے جذبوں سے آگاہ تھے۔ انہیں فاطمہ کے لئے ولی کی فکر کرنا اچھا لگا تھا ۔