ezreaderschoice

Novels World

Insan waqei senkron logon mein bhi tanha hai article by Bint E Sajid


انسان واقعی سینکڑوں لوگوں میں بھی تنہا ہے

ازقلم: بنتِ ساجد

سمندر کا شور گھڑی کی ٹک ٹک سنساٹے دھند گہری یادیں اور کھوئے ہوئے پلو میں گم شخص کیا سردی لوگوں کو افسردہ کردیتی ہے ؟؟

 نہیں یا شاید ہاں!

 لوگوں کی سوچ کی بات ہے کہیں مثبت کہیں منفی مثبت لوگ بظاہر تو یہ کہ سکتے ہے کہ یہ صرف ایک موسم ہے  لیکن قلب میں کہیں یہ خلش رہ جائے گی کہ مجھے اس بات سے اطمنان نہیں بخشا کسی نے  اس سوال کا جواب میں خود تلاش نہ چاہتی ہوں  اگرچہ یہ سوال پہاڑ کھودنے کے مترادف نہ ہوگا مگر یہ اتنا آسان نہیں لگتا  شاید یہ کسی کھنڈر سے روشنی چھاننے کے مترادف لگتا یہ خیر یہ اتنا بھی مشکل نہیں آپ اسے میرا نظریہ بھی کہ سکتے ہیں

 میں یہ ضروری تو  نہیں سمجھتی مگر شاید تعارف کرانے سے انحراف کرنا غلط ہوگا

میرا نام تو شاید غیر ضروری ہے یہاں مگر ایک مختصرسا تعارف آپ کا حق ہے اگرچہ میں تعارف کی محتاج نہیں ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بہت معروف ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز میں میری دلچسبی کی شرح کم ہے  (خیر آگے )

میں بنت ساجد ہو ایک عام سے گھر کی ایک ادنی سی لڑکی میرا تعلق  پنجاب سے ہے مگر میں رہائشی کراچی کی ہوں میں سال اول میں کاروبار کی طلبہ ہو ں مجھے اگرچہ ایک قلم نگار بننے کا بہت شوق تھا مگر آپ اسے میری بد قسمتی سمجھ لیجئے کہ میں یہ نہ کرسکی کیونکہ مجھے بی بی اے کی ڈگری لینی ہے

 خیر بات یہاں انسان کے دل کی ہے ایک افسردہ انسان سردیوں میں خود کو مزید تنہا کیوں کرلیتا ہے؟ کیا سردیا لوگوں کو افسردہ کردینے کا ہنر رکھتی ہیں؟؟  بات یہاں افسانوی نہیں ہے نہ میں خود افسانوی

ہوں مجھے حقیقت میں رہنے کے ساتھ ساتھ حقیقت کی کھوج لگانے کا بھی شوق ہے  تو آج اسی مقصد کے ساتھ میں خود کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی اپنے جواب سے مطمئن کرنا چاہتی ہوں اگرچہ میں بہت کم عمر ہوں اور والدین کے مطابق کم عقل بھی مگر لوگوں کے حال بہت آسانی سے پہچان جاتیں ہوں شاید یہ میرا ہنر ہے

 انسان ایک جست خاکی ہے مگر زندہ حال زندگی میں خاک ہوجاتا ہےجن سے انہیں امید نہیں ہوتیں ان سے اپنے بارے میں منفی خیالات جاننے کا بعد انسان کا نرم دل سردیوں کی ٹھنڈ جیسا ہونے لگتا ہے یہ کبھی مسلسل کوششوں کے بعد اتنی ناکامی کا دکھ نہیں ہوتا جتنا اپنے عزیزو سے ان کی اظہارے رائے جان کر ہوتا ہے کہیں ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے انسان ٹوٹ جاتا ہے کہیں اپنے کردار کی سفائیاں پیش کرتے کرتے کہیں لوگوں کو اپنی سچائی کا یقین دلاتے دلاتے

کہیں اپنے نقتہ نظریہ سمجھاتے سمجھاتے ایسے حالاتوں سے گزرنے کے بعد انسان تنہا پسند ہوجاتا ہے اور کسی کی ضرورت پیش نہیں رہتی

 اپنے جواہرات جیسا گھر پنجرا لگنے لگتا ہے اور انسان فرار چاہتا ہے لوگوں سے گھر سے اس گھر کی مکینوں سے اپنے عزیزو سے کیونکہ اس مقام پر لاکر کھڑا کرنے والے یہی لوگ ہیں کیونکہ غیروں کی باتیں تکلیف ضرور دیتی ہیں مگر اپنوں کی باتیں روح کو چھلنی کردیتی ہیں

 روح میں پوشیدہ یہ زخم بظاہر لوگوں کو نظر تو نہیں آتے مگر اندر ہی اندر کیا تکلیف ہوتی ہے شاید یہ بیان کرنا بہت مشکل ہے آخر میں انسان یہ نتیجہ اخز کرتا ہے کہ و ہ شدید زہنی مرض میں مبتلا ہے اکیلے سڑکوں پر خاک چھاننا خود کو حد ِ کوشش کاموں میں مشغول کرنے کے بعد بھی وہے ٹھنڈی راتوں میں گرم سیال پانی کا آنکھوں سے بہ جانا معمول ہوجاتا ہے  پھر وہی لوگ جو اس مقام پر کھڑا کرتے ہیں وہ سوال

کرتے ہیں خاموش زبان کا جزباتوں پر پڑی ٹھنڈی دھند کا پتھر دل کا اس انسان کے اندر بسی روح تو چیخ چیخ کر وجوہات بیان کرتی ہے مگر زبان دریخ کردیتی ہے کہ اب وہ یہ سب بیان کرنے سے قاصر ہے

 مگر سردیاں انسان کو مزید افسرد کیوں کرتی ہیں ؟؟

 گرمیوں کا شور کئ حد تک انسان کو غیر دماغ کرنے پر کامیاب ہوجاتا ہے اور انسان ازیت کو کم ہوتا محسوس کرتا ہے اور راتیں مختصر ہونے کی وجہ سے زیادہ سوچنے سمجھنے رونے کی مہلت نہیں دیتی اور لمبے دن کی تکان سے نیند کی دیوی مہربان ہوکر انسان پر کرم کردیتی ہے

 مگر سردیوں کا چھوٹا دن کم تکان لمبی راتیں سنسان ماحول پانی کی بوندو کی گرنے کی دھن گھڑی کا بولنا ہوائو کو آواز ہر چیز انسان کو اکساتی ہے کہ ہم بے زبان بول رہے تو تو بھی بول تو تو زبان والا ہے نا تو

خاموش کیوں لیکن  وہی زبان کا انحراف مگر آنکھیں روح کا آئینہ وہ انحراف نہیں کرسکتیں اور برس جاتیں ہیں گرم سیال مادہ رخساروں پر لڑھک کر سب کچھ ہاد دہانی کرا دیتاہے یو سردیوں کی ایک لمبی رات ایک ازیت سے دو چار ہوتے ہوئے کٹ جاتی ہے

 انسان واقع سینکڑوں لوگوں میں بھی تنہا ہے !

  ازقلم :بنت ساجد