ezreaderschoice

Novels World

Sawal ki takhleeq article by Sana Shaban


سوال کی تخليق

انسان کے ذہن میں سوال کب پیدا ھوتا ھے؟اس کے کئی جواب ہیں ۔جب انسان اپنے اردگرد چیزوں کو دیکھتا ھے اس کا معائنہ کرتا ھے تو وہ بنیادی طور پر ان چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ کچھ چیزیں اس کی سمجھ میں آ بھی جاتی ہیں پر کچھ چیزیں اس کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں اور وہ سوال کی شکل لے لیتی ہیں ۔ اس طرح ایک سوال کا انسان کے زہن میں جنم ہو تا ہے ۔
پانچ سال کے بچے کے زہن میں سب سے زیادہ سوال پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اس کا زین نشو ونما پارہا ہوتا ہے ۔ وہ اپنے اردگرد اور بڑوں کی باتوں پر غور کرتا ہے جب وہ کوئی نیا لفظ سنتا ہے لو فوراً پوا ئنٹ آٹ ( point out ) کرتا ہے اور سوال کرتا کہ امی یہ کیا ہے ؟ اس وقت اس کے دماغ کی نشو ونما ہوتی اور اگر اسے خاطر خواہ جواب ملے تو ہی اس کے ذہن اور عقل کی اچھی نشوو نما ہو سکتی ہے ۔ اس کے برعکس اس بچے کے سوال کو ٹوک دیا جا ئے تو اس کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ سوال کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جن وانس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اس میں غور طلب بات یہ ہے کہ اب عبادت کا کیا مطلب ہے؟ نماز پڑھ لیں ، روزه رکھ لیں تو کیا عبادت کا لفظ مکمل ہو جاتا ہے ؟ يقيناً نہیں ۔ عبادت ایک وسیع لفظ ہے ۔ ہم نے جینا کیسے ہے، دوسروں کے ساتھ رویہ ، ہمارا ان کے ساتھ سلوک ، ہمارے فرائض اور ہم کس طرح دوسروں کی زندگی میں آسانی پیدا کررہے ہیں اصل عبادت کے مفہوم میں آتا ہے۔
جب انسان کی آنکھ بیدار ہو جائے تو اس کو چیزیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں پھر اس کے سامنے بہت سے سوال جنم لیتے ہیں ۔ سب سے پہلے اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے پیدا ہونے کا مقصد کیا ہے ۔ وہ کون ہے؟ اس دنیا میں وہ ہی کیوں کر پیدا ہوا ؟ وہ اپنے آپ کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ جب انسان اپنی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کے ذہن میں اپنے آپ کو لے کر ، اپنی شخصیت کے متعلق بے شمار سوال پیدا ہو تے ہیں ۔ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں سے اس بارے جاننے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ اپنے جواب تلاش کرتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اسے مختلف اشاروں میں جواب بھی دے رہا ہوتا ہے ۔ وہ اشارے ، وہ جو اب صرف وہی انسان پہچان سکتا ہے ، وہی انسان سمجھ سکتا ہے جس کی آنکھ بیدار ہو ۔ دل کی آنکھ بیدار ہو ۔ جب انسان دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے تو اس کا چیزوں کو دیکھنے کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ اس کی سوچ عام لوگوں جیسی نہیں رہتی بہت خاص ہو جاتی ہے۔ ا لیے لوگ چیزوں کا معائنہ بہت غور سے کرتے ہیں وہ اپنے مشاہدوں سے جواب نکال رہے ہوتے ہیں ان کو الله کے اشارے سمجھ میں آنے لگ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالٰ قرآن پاک میں فرما تے ہیں کہ اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں ۔ اور اللہ تعالٰی غوروفکر کرنے والوں کو پسند بھی فرماتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک ایسا شخص جیسے اپنے پیدا ہونے کا مقصد ہی نہیں پتا وہ اپنی زندگی کو غفلت میں گزار دیتا ہے ۔ جس کے پاس زندگی میں مقصد ہی نہ ہو بعد میں اس کے صرف پچھتاوا ہوتا ہے۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ غافل کی آنکھ بند ہونے کے بعد بیدار ہوتی ہے ۔

خدارا اپنی آنکھ بند ہونے سے پہلے اسے بیدار کرو ۔ اپنی زندگی کا مقصد پیچان لو ۔ اس دنیا میں کئی لوگ آئے اور کئی لوگ چلے گئے کوئی یاد نہیں ۔ اگر یاد ہیں تو صرف وہ لوگ جنھوں نے اپنے مقصد کو پہچانا اور کچھ کر دکھایا کیوں کہ ان کے ذہن میں اس سوال کی تخلیق ہوئی ۔ اگر دیتی دنیا تک اپنا نام قائم کرنا ہے تو اپنے آپ سے سوال کرو ۔ .

*************